مقبوضہ جموں وکشمیر : فرقہ واریت کی آگ پھر بھڑکانے کی کوشش

محمد شہباز بڈگامی

مقبوضہ جموں و کشمیر جو صوفیوں،رشیوں اور پیروں کی سرزمین ہے،بلکہ یہ “پیرء وار”کے نام سے بھی مشہور ہے ۔پھر ایکبار فرقہ واریت کی آگ سے بال بال بچ گئی ہے،جب عمران رضا انصاری جو کہ سجاد لون کی پیپلز کانفرنس کے جنرل سیکرٹری ہیں،نے پیغمبرکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر اصحاب رض کی ذات کو نشانہ بناکر گستاخی اور نازیبا الفاظ کہے۔ ظاہر ہے اس کے نازیبا الفاظ سنی مکتبہ فکر پر براہ راست حملہ ہیں۔بھلا ہو متحدہ مجلس علما کا،جس نے بروقت آگ پر قابو پالیا،جس کی تپش شاید مدتوں محسوس کی جاتی۔متحدہ مجلس علما کے علاوہ شیعہ مکتبہ فکر کے سرکردہ افراد اور علما جن میں آغا سید حسن الموسوی، مولوی مسرور عباس انصاری اور آغا سید محمد ہادی نے عمران رضا انصاری کے اشتعال انگیز اور بیہودہ بیانات سے مکمل لاتعلقی کا اعلان کرتے کہا ہے کہ اس قسم کی زبان درازی اسلامی تعلیمات کے باکل برعکس اور ناقابل برداشت ہے۔ متحدہ مجلس علمانے عمران رضا انصاری کے سماجی بائیکاٹ کا اعلان بھی کیا ہے۔عمران رضا انصاری نے جس زبان درازی کا ارتکاب کیا ہے ،اس کے پیچھے چھپے گہرے محرکات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں فرقہ وارانہ آگ بھڑکانے کی سازش ایک ایسے موقع پر کیونکر ضرورت محسوس کی گئی جب مودی اور اس کے حواریوں کو تمام محاذوں پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ۔پہلگام واقع کے بعد جنگی جنون میں مبتلا مودی اور اس کے ٹولے نے اہل کشمیر کو من حیث القوم دہشت گردی کیساتھ نتھی کرنے کی بھرپورکوشش کی ،پھر 06اور07 مئی کی رات پاکستان اور آزاد کشمیر میں مساجد اور مدارس پر جارحیت کا ارتکاب کرکے بچوں اور خواتین سمیت 31 افراد شہید اور درجنوں زخمی کیے۔جس کے جواب میں پاکستان نے نہ صرف تین رافیل سمیت چھ بھارتی جنگی جہاز مار گرائے بلکہ 09اور10 مئی کی رات کو پاکستان نے 26بھارتی فوجی تنصیبات اور دفاعی اثاثوں کو نشانہ بناکر انہیں ملیا میٹ کیا اور اس کے بعد بھارت بالخصو ص مودی کو سفارتی سطح پر جس ہزیمت کا منہ دیکھنا پڑا ،اس نے بھارتی حکمرانوں کو مکمل طور پر ذہنی لاغر بنادیا ہے۔کیونکہ خود بھارت کے تجزیہ کاروں اور دفاعی ماہرین نے پاکستان کے ہاتھوں بھارت کی شکست اور خارجہ پالیسی کی ناکامیوں کا کھل کر اعتراف کیا۔اب فرقہ واریت کا زہر جو سب سے کارگر ہتھیار سمجھا جاتا ہے بھارتی حکمرانوں کی ایما پر مقبوضہ جموں و کشمیر کے طول و عرض میں پھیلانے کی کوشش کی گئی۔اس کیلئے ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا گیا ،جن کے والد مولوی افتخار حسین انصاری گوکہ مرتے دم تک بھارت نواز سیاست میں سرگرم رہے،مگر انہوں نے بھی کبھی اپنی زندگی میں صحابہ کبار کے بارے میں ایسے الفاظ نہیں کہے۔عمران رضا انصاری کا انتخاب اس لیے بھی کیا گیا کیونکہ وہ شیعہ مکتبہ فکر کیساتھ تعلق رکھتا ہے۔اگر اس آگ پر سنی اور شیعہ مکتبہ فکر کے اکابرین بروقت پانی ڈالنے کا کام نہ کرتے،تو نہ نجانے پورے مقبوضہ جموں و کشمیر میں صورتحال کیا رخ اختیار کرتی۔کیونکہ ماضی میں بھی بھارتی حکمرانوں نے کئی بار مقبوضہ جموں و کشمیر میں شیعہ سنی آگ بھڑکائی۔اس وقت سید علی گیلانی،مولوی عباس انصاری ،میر واعظ عمر فاروق ،محمد یاسین ملک او ر آغا سید حسن بڈگامی نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے اور مذموم بھارتی عزائم کو ناکامی سے دوچار کرنے میں جو اہم کردار نبھایا ہے،و ہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔اسلام کی نشاة ثانیہ سے لیکر آج تک دشمن نے ہمیشہ مسلمانوں کی صفوں میں ایسے افراد تلاش کیے ،جو مذہبی منافرت،مسلکی آگ بھڑکانے اور مسلم بھائی چارے کو پارہ پارہ کرنے میں دشمن کے آلہ کار بنے ،عمران رضا انصاری بھی دشمن کا ہی ایک آلہ کار ،مذہبی منافرت پھیلانے اور مسلم بھائی چارے کو تباہی و بربادی سے دو چار کرنے میں بدنام زمانہ ہیں ۔ورنہ کوئی کلمہ گو مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار صحابہ سے متعلق زبان درازی کرنا دور کی بات ،سوچ بھی نہیں سکتا ہے،کیونکہ صحابہ کبار کیساتھ محبت ایمان کا تقاضا ہے ۔مملکت ایران جو شیعہ مکبتہ فکر کا سب سے بڑا ملک اور مرکز ہے،کے اعلی رہبر آیت اللہ علی خامنہ ای حال کے علاوہ چند برس قبل یہ فتوی صادر کرچکے ہیں کہ ازواج مطہرات ، اصحاب رسول اور صحابہ کبار سے متعلق زبان درازی نہ صرف ناقابل قبول ہے،بلکہ حرام ہے اور جو شخص ایسا کرے گا،وہ اپنے ایمان سے ہاتھ دھوئے گا۔جناب آیت اللہ خامنہ ای کو پوری دنیا کی شیعہ برادری ، ان کے اکابرین اور علما کے نزدیک بڑی قدرو منزلت ہے،اب جب عمران رضا انصاری جیسے لوگ جو خود کو شیعہ مکتبہ فکرکا پھنے خان سمجھتا ہے ،کیا اس پرجناب آیت اللہ خامنہ ای کا فتوی صادر نہیں آتا؟یقینا آتا ہے اور شیعہ مکتبہ فکر کیساتھ وابستہ جو لوگ ابھی بھی عمران رضا انصاری کو اپنی مجالس اور محافل میں بلاتے ہیں،وہ اپنے طرز عمل پر سنجیدہ غور فکر کریں۔ایسے افراد کسی بھی مہذب معاشرے،سماج اور لوگوں میں ناسور،قابل نفرت اور دھتکارنے کے قابل ہوتے ہیں۔مقبوضہ جموں وکشمیر کی سرزمین کے عوام نے ہمیشہ دشمن کے حربوں اور ہتھکنڈوں کو اپنے بھائی چارے،اتحاد اور یکجہتی سے ناکامی سے دوچار کیا ہے ،آج پہلے سے کہیں زیادہ اتحاد ویگانگت اور اہمیت کی ناگزیر ضرورت ہے۔فرقہ وارانہ آگ بھڑکانا اہل کشمیر کے وجود اور لاکھوں قربانیوں سے مزیں تحریک آزادی کیلئے سم قاتل ہے اور جو کوئی بھی اور جس مکتبہ فکر کیساتھ وابستہ فرد ،اشخاص یاگروہ فرقہ وارانہ آگ بھڑکانے کی کوشش کریں گے،وہ کشمیری عوام اور تحریک آزادی کے خیرخواہ نہیں بلکہ صرف اور صرف بھارت کے خاکوں میں رنگ بھرنے والے شمار ہوں گے۔امت مسلمہ کا شیرازہ اگر کمزور اور بکھر رہا ہے تو اس کے پیچھے یہی عوامل کار فرما ہیں کہ امت میں بانت بانت کی بولیاں اور مسلکی زہر نے ہمیں ایک دوسرے کا جانی دشمن بنایا ہے۔دشمن نہ صرف خاموشی سے تماشہ دیکھ رہا ہے بلکہ دشمن کی گولی سنی اورشیعہ میں تفریق نہیں کرتی۔دشمن کے میزائل گرتے ہیں تو کلمہ گو ہی نشانہ بنتے ہیں۔

ارض فلسطین ہو،ارض کشمیر ہو،ارض ایران ہو یا بھارتی مسلمان۔دشمن ان کا مذہب یا مسلک نہیں دیکھتا ۔ان کی مساجد، مدارس یا مقدسات میں تمیز نہیں کی جاتی کہ وہ فلاں مسلک یا فرقے کی ہیں۔اگر کسی کلمہ گو کو ابھی کوئی شک ہے تو غزہ،شام،لبنان،ایران ،بھارت اور مقبوضہ جموں و کشمیر اس کی جیتی جاگتی مثالیں اور ثبوت ہیں۔ تحریک آزادی کشمیر جس سے لاکھوں کشمیری اپنے خون سے آبیاری کرچکے ہیں اور آج بھی قربانیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے کسی فرقہ واریت کی متحمل نہیں ہوسکتی اور نہ ہی اس کی اجازت دی جاسکتی ہے۔خاصکر 05اگست2019 کے بعد مودی اور اس کے حواری جس سرعت کیساتھ مقبوضہ جموں و کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے میں مصروف عمل ہیں،ہر روز کشمیری عوام کی جائیداد و املاک،زرعی اراضی،باغات ،رہائشی مکانات پر قبضہ اور مسلمان کشمیری ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کرنے کا خوفناک سلسلہ جاری ہے،اس صورتحال میں اہل کشمیر داد تحسین کے مستحق ہیں کہ وہ حالات کے تمام تر جبر کے باوجود بھی بھارت کے سامنے سرنگوں نہیں ہوتے ،کوئی ذہنی مریض ہی اس اہم موڑ پر فرقہ وارایت کی آگ بھڑکانے کی حماقت کرسکتا ہے۔عمران رضا انصاری کی گستاخی کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے ہر دونوں طبقات اور مکتبہ فکر نے جس ہمت اور جرات کیساتھ مسترد کرکے اپنے حصے کا کام کیا ہے ،اسے نہ صرف تادیر یاد رکھا جائے گا بلکہ اس کی قدر کرنی چاہیے کہ اہل کشمیر میں ایسے افراد، پلیٹ فارم ابھی بھی موجود ہیں،جن کی بات کو سنا جاتا اور وزن ہے۔یہ کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔اگر عمران رضا جیسا فتنہ گر کشمیری عوام کے معاشرے میں ننگا ہوچکا ہے تو یہ سہرا بھی تحریک آزادی کشمیر کے انہی سرخیلوں کو جاتا ہے۔بقائے باہمی کے اشتراک اور رواداری سے ہی معاشرے پروان چڑھتے ہیں ،ورنہ جانوروں کی بھی اپنی ایک دنیا ہے۔ان میں اور انسانوں کی بودوباش میں صحیح اور غلط کی تمیز کا ہی فرق ہے۔عمران رضا انصاری ہو یا کوئی اور فتنہ باز، انہیں کشمیری معاشرے سے تب ہی الگ تھلگ کیا جاسکتا ہے جب اچھے اور برے میں تمیز کی جاسکے ۔اس کیلئے تبدیلی کا بنیادی نکتہ انسان کے اندر سے پیدا کیا جاتا ہے،آج غور و فکر اور تدبر و تفکر اہل کشمیر کے ہر فرد کے دروازے پر دستک دے رہا ہے ،کہ ہمیں ان لوگوں کی سوچ کو پروان چڑھانا ہے،جنہوں نے اپنی زندگیاں اسلام کی ترویج اور تحریک آزادی کشمیر کی کامیابی کیلئے وقف اور قربان کیں،یا عمران رضا انصاری کی سوچ کو یکسر رد کرنا ہے ،جو محض اپنے نفس کا حریص اور ہمیشہ دشمن کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔یہ مرکزی نکتہ ہم سب کیلئے دعوت فکر ہے۔

جناب محمدشہباز بڈگامی معروف کشمیری صحافی اور کالم نگار ہیں۔ کشمیر الیوم کیلئے مستقل بنیادوں پر بلامعاوضہ لکھتے ہیں۔