راہ حق میں ہوئے میرے حادثے کی کہانی میری زبانی

جور ُکے تو کوہ گرِاں تھے ہم۔۔۔۔

(گذشتہ سے پیوستہ)

وسیم حجازی

بارہویں جماعت میں ہجرت سے قریباً دو ماہ قبل میں نے خواب میں دیکھا کہ میں سرحد کے اس پار پاکستان جا رہا ہوں اور وہاں اپنی پڑھائی شروع کر رہا ہوں۔یہ خواب دیکھنے کے دو مہینے بعد جب میں سچ مچ سرحد پار کرکے پاکستان پہنچ گیا تو میں اس خواب کے دوسرے حصے کے بارے میں سوچتا رہتا۔ساڑھے تین سال تک خواب کے اس دوسرے حصے نے مجھے ہمیشہ مخمصے میں ڈال دیا کہ اگر میں پاکستان عسکری تربیت کیلئے آیا ہوں تو پڑھائی کا کیا مطلب ہے؟ جب میں مظفرآباد آیا تو یہاں خواب کے اس دوسرے حصے نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا۔میں نے خواب کے اس دوسرے حصے پر سنجیدگی سے سوچنا شروع کیا کیونکہ اب میرے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا آپشن بھی نہیں تھا۔میں جس عسکری تربیت کیلئے پاکستان آیا تھا اس عسکری تربیت نے مجھے ہمیشہ کیلئے وہیل چیئر پر بٹھا دیا تھا۔
اب زندگی تو جیسے تیسے گزارنی ہی تھی لیکن یوں بیکار رہ کر ذہنی پریشانی کا شکار ہونے سے بہتر تھا کہ اپنے ذہن کو کسی طرح مصروف رکھا جائے۔لاہور واپسی کے بعد مظفرآباد میں کئی مہینے اسی سوچ میں گزرے کہ مجھے خود کو ذہنی طور پر مصروف رکھنا چاہیے۔اسی دوران فاطمہ باجی بھی مجھ سے ملنے مظفرآباد آگئی ۔ان کے ساتھ بھی اس حوالے سے میری گفتگو ہوئی۔محمدمقبول پنڈت، یٰسین چارلی اورمحمد علی سے بھی مشاورت ہوئی۔ اس کے علاوہ اور ساتھیوں سے بھی اس معاملہ پر بات چیت ہوئی ۔بالآخر یہ طے پایا کہ مجھے اپنی پڑھائی پھر سے شروع کرنی چاہیے. چونکہ میں 1993 میں بارہویں جماعت کا طالب علم تھا۔ اس لئے مروجہ تعلیم کا سلسلہ جو یہاں پر منقطع ہوا تھا اسکو پھر سے شروع کرنے کا میں نے حتمی فیصلہ لے لیا۔
یوں تقدیر نے چار سال پہلے کے طالبِ علم کو طویل عرصے کا کٹھن سفر طے کرا کے پھر سے مروجہ تعلیم کا طالبِ علم بنا دیا۔طالبِ علمی سے طالبِ علمی تک کا سفر کس قدر پیچیدہ مشکل اور دشوار تھا اسکا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔اکتوبر 1993 سے اکتوبر 1997 تک پورے چار سال ہوچکے تھے اور ان چار سالوں میں میری کتابِ زندگی کے ہر ورق پر امتحانوں،آزمائشوں اور قربانیوں کی داستانیں رقم ہوچکی تھیں۔اپنے طالبِ علمی کے زمانے میں،میں تو کتابی کیڑا تھا ہی۔اب پھر سے گردشِ لیل و نہار نے مجھے کتابی کیڑا بنادیا۔چار سال پہلے بارہ سال تک کتابوں کی دنیا میں کھو جانے والا طالب علم پہلے ایک خاص مقصد حاصل کرنے کیلئے تعلیم حاصل کررہا تھا لیکن اب وہ بس اپنے آپ کو ذہنی طور پر مصروف رکھنے کیلئے کتابوں کا مطالعہ کر رہا تھا.
میری پڑھائی دراصل میری Rehabilitation Process کا ہی ایک حصہ تھی۔اپنی جسمانی معذوری سے اپنی توجہ ہٹانے کیلئے اب میرے لئے ضروری تھا کہ میں کسی طرح اپنے ذہن کو مصروف رکھوں۔میں اپنی زندگی کے انتہائی ہولناک تجربے سے گزر رہا تھا۔ میں جسمانی تکلیف کے ساتھ ساتھ ذہنی تکلیف سے بھی گزر رہا تھا۔اس نئی طرز زندگی کی تکالیف کو اپنے ذہن پر سوار ہونے سے مجھے بچانا تھا۔مجھے پراگندہ خیالوں اور عجیب و غریب ذہنی وسوسوں سے خود کو دْور رکھنا تھا۔مجھے اپنی آنکھوں کے ہر آنسؤ کو لوگوں سے چھپا کر اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹیں سجانی تھیں۔مجھے رفتہ رفتہ زندگی کی ریل گاڑی کو پھر سے پٹری پر لانا تھا. مجھے اپنے ٹوٹے بدن اور بکھری زندگی کو قدم بہ قدم آگے لے کر جانا تھا۔مظفرآباد آ کر ایک ذہنی راحت مجھے یوں ملی کہ اپنے ہمسفر ساتھیوں کے ساتھ روزانہ میری ملاقاتیں ہوتی تھیں۔روزانہ میرے پاس ساتھی ملاقات کیلئے آتے رہتے تھے. اس طرح میں کافی حد تک ذہنی پریشانی سے بچ جاتا تھا۔اب جب کہ میں نے سیلبس کی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا تو ان ملاقاتوں کے علاوہ مجھے اپنے ذہن کو مصروف رکھنے کا ایک اور موقعہ مل گیا۔میں نے سیلبس کی کتابوں کو پڑھنے کیلئے ایک ٹائم ٹیبل ترتیب دیا۔میں نے روزانہ ہر کتاب کو پڑھنے کیلئے ایک گھنٹے کا وقت مقرر کیا۔اسطرح دن کے چھ گھنٹے کتابوں کے مطالعہ میں گزر جاتے۔اس دوران کوئی ساتھی ملنے آتا تو میں کتاب بند کرکے اس سے گپ شپ شروع کردیتا۔میں نے ہر کتاب کی الگ الگ نوٹ بک بنائی اور ان پر ہر کتاب کے اہم مضامین ،اہم سوالات کے جوابات درج کرتا گیا۔ اسطرح پڑھنے کے ساتھ ساتھ لکھنے کی مشق بھی جاری رہی اور سوالات کے جوابات کو ذہن نشین کرنے کی ذہنی ورزش بھی جاری رہی۔یوں میں نے وقت کا بہترین مصرف نکالا۔میں اکثر و بیشتر مکان کے صحن میں کتاب لیکر بیٹھ جاتا اور مطالعہ میں مگن ہو جاتا۔ مطالعہ کے دوران میری نگاہیں کبھی دریائے نیلم کے نیلگوں پانی کو تکتی رہتیں اور کبھی سامنے والے پہاڑ کی چوٹیوں کے دلفریب نظارے سے لطف اندوز ہوجاتیں۔ساتھ ہی میں باہر دھوپ کی تمازت سے اپنے جسم کو حرارت بھی پہنچاتا رہتا۔سردیوں میں مظفرآباد کا موسم میرے مزاج کے عین مطابق تھا۔ یہاں کا موسم جموں کے موسم کی طرح ہوتا ہے۔یہاں گرمیوں میں اچھی خاصی گرمی پڑتی ہے اور سردیوں میں سردیاں بھی قابل برداشت ہوتی ہیں۔یہاں برفباری نہیں ہوتی البتہ پیرچناسی کی پہاڑیوں پر ہلکی برفباری ہوتی ہے۔لاہور کے برعکس یہاں میرے جسم نے کافی راحت پائی. اللہ کے فضل و کرم سے میں جسمانی طور اب کافی صحتمند ہو رہا تھا اور ذہنی طور بھی اب کافی پرسکون ہو چکا تھا۔
یہ نومبر 1997 کی بات ہے کہ شہید نعمانی صاحب سے میری ملاقات مظفرآباد میں قریباً چار سال بعد ہوئی۔

وہ انہی دنوں میدانِ کارزار سے بیس کیمپ دوسری مرتبہ تشریف لائے تھے اور مظفرآباد کے سرجیکل ہسپتال میں کچھ دن سے زیرِ علاج تھے۔اس سے پہلے وہ 1990 میں بیس کیمپ میں عسکری تربیت لینے آئے تھے۔عسکری تربیت حاصل کرنے کے بعد وہ میدانِ کارزار چلے گئے اور وہاں سالہاسال تک دادِ شجاعت دیتے رہے۔میدانِ کارزار میں ان سے کبھی کبھار ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔جب میں نے عسکری میدان میں اترنے کا فیصلہ لیا تو اس معاملے میں،میں نے سب سے پہلے نعمانی صاحب سے ہی مشورہ کیا۔پھر جب ہماری ہجرت کا پروگرام بنا تو نعمانی صاحب نے ہی اس حوالے سے ساری پلاننگ مرتب کی۔علاقے سے پانچ افراد کا جو گروپ روانہ ہوا اسکے ماسٹر مائنڈ وہی تھے۔جب ہم اپنی بستی سے دور نکلے تو نعمانی صاحب ہمیں الوداع کرنے وہاں پر خود آگئے۔ان سے میری یہ الوداعی ملاقات 29 اکتوبر 1993 جمعہ کو دن کے چار بجے ہوئی۔اس کے بعد میں اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ بیس کیمپ پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ادھر نعمانی صاحب عسکری میدان میں اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے انتہائی فعال نظر آئے۔جب اخوان دور میں ہر طرف ہو کا عالم تھا تو نعمانی صاحب اس وقت بھی (اخوانیوں )بھارتی فوج کے زیر دست ٹاسک فورس کے دانت کھٹے کر رہے تھے۔بٹالین کمانڈر کی حیثیت سے انہوں نے اس مشکل وقت میں محاذ کو تنِ تنہا سنبھالا جب ہر طرف سے مجاہدین پر زبردست دبائو تھا۔پھر جب شاکر صاحب واپس میدان کارزار پہنچے تو نعمانی صاحب نے اپنی ذمہ داری انہیں سونپی اور خود بیس کیمپ روانہ ہوگئے۔نعمانی صاحب کو جب میں نے چار سال کے بعد دیکھا تو انکی جسمانی حالت دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ اندھیری راتوں کا تھکا ہوا یہ مسافر سات سالوں میں نہ جانے کتنی ذہنی اور جسمانی جنگیں لڑ چکا ہے۔ نہ جانے کتنے قیامت خیز مراحل سے گذر چکا ہے۔گوریلا جنگ لڑنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔گوریلا جنگ لڑنے والے سپاہی کی راتوں کی نیندیں حرام ہو جاتی ہے،اس کیلئے دن،رات بن جاتی ہے اور رات ،دن کی جگہ لے لیتی ہے۔اسے رات کی تاریکی میں ہی سارے کام نمٹانے پڑتے ہیں۔وہ لوگوں کی نگاہوں سے چھپ کر جی رہا ہوتا ہے۔جسمانی تکالیف،بیماریاں اسکے جسم پر انتہائی منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔وہ اعصاب شکن مرحلوں سے بار بار گذرتا رہتا ہے۔وہ اپنی جان ہتھیلی پر لئے پھرتا رہتا ہے۔اسے بار بار موت سے آنکھیں لڑانی پڑتی ہیں۔کمانڈرنعمانی کے دو بھائی پہلے ہی شہادت پا چکے تھے۔انکے بڑے بھائی 1990 میں بیس کیمپ کی طرف ہجرت کی غرض سے گئے لیکن کپواڑہ کے سرحدی علاقے میں انہیں آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی یہ آج تک پتہ نہیں چلا۔پھر 1992 میں انکے چھوٹے بھائی اپنے ہی گاؤں میں حادثاتی طور پر بارودی سرنگ کی زد میں آکر اس دنیا سے ہمیشہ کیلئے چلے گئے۔یقیناً اپنے دو بھائیوں کی جدائی نے انکا جگر چھلنی کیا ہوگا۔میدانِ کارزار میں سات سال تک انکے ماں باپ اور بہن بھائیوں کو بھی دشمنوں نے طرح طرح سے ستایا۔انکی اہلیہ اور انکے دو چھوٹے سے دودھ پیتے معصوم بچے بھی اس دوران طرح طرح کی مصیبتیں جھیلتے رہے۔تصور کیجئے ان پر اور ان کے اہلِ خانہ پر اس وقت کیا بیت رہی ہوگی جب وہ اپنی جان ہتھیلی پر لئے پھر رہا تھا جبکہ انکے گھر سے دو نوجوان جوانی میں ہی انہیں داغِ مفارقت دے گئے۔تیسری بری خبر میں نے انہیں 1998 میں اس وقت سنائی جب وہ مظفرآباد دفتر میں آئے ہوئے تھے۔ مجھے والد صاحب نے دہلی سے ٹیلی فون کال کر کے بتایا کہ نعمانی صاحب کی تین سال کی بچی اب اس دنیا میں نہیں رہی۔وہ ہمارے سیب کے باغ میں سکے کے ساتھ کھیل رہی تھی کہ اسی دوران وہ سکہ انکے منہ میں چلا گیا اور حلق میں اٹک گیا۔انکی سانس بند ہوگئی اور اس نے داعیِ اجل کو لبیک کہا۔جب میں نے نعمانی صاحب کو یہ انتہائی دلدوز خبرسنائی انہوں نے کمال صبر سے اس خبر کو سہہ لیا۔وہ ایک جگہ رہنے کا عادی نہیں تھا۔بیس کیمپ کی زندگی انکے مزاج کو راس نہ آئی لہٰذا انہوں نے واپس میدانِ کارزار جانے کا حتمی فیصلہ کیا۔تنظیم کے ذمہ داران چاہتے تھے کہ وہ بیس کیمپ میں ہی اپنی ذمہ داریاں نبھائیں لیکن وہ انہیں قائل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔انکے ساتھ میری آخری ملاقات 2002 میں راولپنڈی میں ہوئی۔پھر وہ 2002 میں ہی میدانِ کارزار واپس لوٹ گئے۔یہاں ایک سال تک وہ متحرک رہے اور بالآخر 8 اپریل 2003 کو اپنے ایک ساتھی کے
ساتھ انکاؤنٹر میں جامِ شہادت نوش کر گئے۔
(جاری ہے)