آپ نےپوچھا ہے

مفتی خالد عمران خالد

کیا فرماتے مفتیانِ کرام اس مسئلہ میں کہ ہمارے یہاں مؤذن تکبیر کے وقت اللہ اکبر کہتے ہوئے ہر بار سانس توڑتا ہے ہر اللہ اکبر پر، کیا یہ صحیح ہے؟ جواب عنایت فرمائیں؟
جواب۔۔اذان اور اقامت کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ ہر کلمہ کو ساکن پڑھا جائے، اذان میں ہر کلمہ پر وقف کرے اور اقامت میں دو کلمات کے بعد وقف کرے، مگر پہلے کلمہ کو بھی بنیتِ وقف ساکن پڑھے، لہٰذا ہر بار اللہ اکبر پر رکنا نہیں چاہیئے بلکہ دو دو کلمات کے بعد رکے۔
’’زبدۃ الفقہ‘‘ میں ہے:مؤذن اذان کے کلمات ٹھہر ٹھہر کر کہے اور اقامت جلدی یعنی رکے بغیر کہے، یہ مستحب طریقہ ہے ، اگر اذان کو بغیر رکے کہے یا اقامت کو اذان کی طرح ٹھہر ٹھہر کر کہے تو جائز، لیکن مکروہ ہے۔ ایسی اذان کا اعادہ مستحب ہے اور ایسی اقامت کا اعادہ مستحب نہیں، رک رک کر کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر دو کلموں کے درمیان میں کچھ ٹھہرے اور اس کی مقدار یہ ہے کہ اذان کا جواب دینے والاجواب دے سکے، بغیر رکے کا مطلب ملانا اور جلدی کرنا ہے، اَللّٰهُ اَكبَردو دفعہ کہنے کے بعد رکے ہر دفعہ اَللّٰهُ أكبَرکہنے پر نہ رکے یعنی اَللّٰهُ اَكبَر اَللّٰهُ اَكبَرایک ساتھ کہے، پھر کچھ دیر ٹھہرے، پھر اَللّٰهُ اَكبَر اَللّٰهُ أكبَرایک ساتھ کہے اور ٹھہرے،کیوں کہ سکتہ کے لحاظ سے اَللّٰهُ أكبَردو دفعہ مل کر ایک کلمہ ہے، پھر ہر کلمہ کے اوپر توقف کرتا رہے، اذان اور اقامت میں ہر کلمہ پر وقف کا سکون کرتا رہے، یعنی دوسرے کلمہ سے حرکت کے ساتھ وصل نہ کرے، لیکن اذان میں اصطلاحی وقف کرے، یعنی سانس کو توڑ دے اور اقامت میں سکون کی نیت کرے، کیوں کہ اس میں رک رک کر کہنا نہیں ہے، اذان میں ہر دوسری دفعہ اَللّٰهُ اَكبَریعنی دوسرے، چوتھے اور چھٹے اَللّٰهُ أكبَرکی رے کو جزم کرے اور حرکت نہ دے، اور اس کو رفع ( پیش) پڑھنا غلطی ہے، اور ہر پہلے اَللّٰهُ اَكبَرکی یعنی پہلے، تیسرے اور پانچویں کی رے اور اقامت کے اندر ہر اَللّٰهُ أكبَرکی” ر‘‘ کو بھی سکون یعنی جزم کرے اور اگر وصل کرے تو وقف کی نیت کے ساتھ ” ر‘‘ کی زبر سے وصل کرنا سنت ہے، ضمہ (پیش) سے وصل کرنا خلافِ سنت ہے،اَللّٰهُ اَكبَرکے لفظ اَللّٰهُ کے الف ( ہمزہ) کو مد کرنا کفر ہے، جب کہ معنی جانتے ہوئے قصداً کہے۔ اور بلا قصد کہنا کفر تو نہیں، لیکن بڑی غلطی ہے ۔ اور أكبَرکے ب کو مدّ کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔
سوال :اذان کب دینا مسنون ہے ؟ مثلا ظہر کا وقت تقریبا 11:30بجے شروع ہوتا ہے تو اذان کب دیں، تاخیر یا جلدی جواب دےکر شکریہ کا موقع عنایت کریں؟
جواب۔۔واضح رہے کہ اذان اور نماز میں موالاة( پے در پے ہونا، بہت زیادہ فصل/دیر نہ ہونا ) افضل ہے، اذان اور نماز میں اتنا فصل/وقت ہو کہ وضوء کرنے والاوضوء مکمل کرسکے، قضاء حاجت کرنے والا قضاء حاجت کرسکے اور نماز پڑھنے والانماز مکمل کرسکے۔لہذٰا سائل کی ذکر کردہ صورت کہ جب نماز کا وقت 11:30 بجے داخل ہورہا ہے،تو اذان جماعت کے وقت سے کچھ پہلے دی جائے، مثلا ًجماعت اگر 01:30 بجے ہو تو اذان 15 منٹ سے 30 منٹ پہلے دی جائے،یہ افضل ہے۔
سوال :کیا ننگے سر نماز ہو جاتی ہے یار ٹوپی کا انتظام کرنا لازمی ہے ؟
جواب۔۔ننگے سر نماز پڑھنا جائز ہے اگر تواضع و خشوع ہو تو کوئی کراہت نہیں اور اگر بے پروائی اور لاا بالی پن سے ہو تو بکراہت نماز ہو جائے گی لیکن اس کو معمول بنانا مناسب نہیں ہے ٹوپی کا انتظام کرنا چاہیے نماز بغیر ٹوپی کے بھی ہو جائے گی ۔موجودہ زمانے میں جو پلاسٹک کی ٹوپیاں مساجد میں رکھی جاتی ہیں ان سے نماز نہیں ہوتی اس سے بہتر ہے کہ نماز بلا ٹوپی پڑھ لی جائے
سوال :مصیبت یاآفت کے وقت اذان دینا ہمارے علاقے میں جب ژالہ باری ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ اذان دیں؛ تاکہ یہ مصیبت ختم ہوجائے ۔اس کی کیا حیثیت ہے ؟
جواب۔۔شدید بارش یا ژالہ باری کے موقع پر اذان دینا شریعت میں ثابت نہیں، البتہ بعض ناگہانی آفات اورشدید مصائب وپریشانی کے مواقع پر اذان دینے کی بعض فقہاء نے اجازت دی ہے۔
فتاوی بینات میں ہے :’’ علامہ شامی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ: خیرالدین رملی رحمہ اللہ کے حاشیہ بحر میں ہے کہ میں نے شافعیہ کی کتابوں میں دیکھا ہے کہ نماز کے علاوہ بھی بعض مواقع میں اذان مسنون ہے، مثلاً: نومولود کے کان میں، پریشان، مرگی زدہ، غصّے میں بھرے ہوئے اور بدخلق انسان یا چوپائے کے کان میں، کسی لشکر کے حملے کے وقت، آگ لگ جانے کے موقع پر. (شامی حاشیہ درمختار۔۔ ص385)، خیرالدین رملی رحمہ اللہ کی اس عبارت سے معلوم ہوا کہ دہشت پسندوں کے حملے کے موقع پر اذان کہنا احناف کی کتابوں میں تو کہیں مذکور نہیں، البتہ شوافع کی کتابوں میں اس کو مستحب لکھا ہے، اس لیے ایسی پریشانی کے موقع پر اذان دینے کی ہم ترغیب تو نہیں دیں گے، لیکن اگر کوئی دیتا ہے تو ہم اس کو ”بالکل غلط حرکت“ بھی نہیں کہیں گے، البتہ نومولود کے کان میں اذان کہنا احادیث سے ثابت ہے، اور فقہِ حنفی میں بھی اس کی تصریح ہے…‘‘
سوال :مسجد میں جس نےاذان دی وہی تکبیرکہہ سکتا ہے ؟بہتر طریقہ بتائیں ، دوسرا نمازی بھی تکبیر کہہ سکتا ہے اور بہتر طریقہ کیا ہے ؟
جواب۔۔جو شخص اذان دے اقامت کہنا بھی اسی کا حق ہے ، مقررمؤذن کے موجود ہوتے ہوئے اس کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے شخص کا اقامت کہنا مناسب نہیں جب کہ اس سے مؤذن کو تکلیف ہوتی ہو مکروہ ہے، لیکن اگر کوئی دوسرا شخص مؤذن کی اجازت سے اقامت کہے، یا بغیر اجاز ت کے کہے،لیکن اس سے مؤذن کو تکلیف نہ ہو، یا اذان دینے والاموجود نہ ہو تو دوسرے شخص کا اقامت کہنا بغیر کسی کراہت کے جائز ہے،افضل اور بہتر یہ ہے کہ جو اذن دے وہی اقامت کہے،البتہ مؤذن کی اجازت کے ساتھ دوسرا شخص بھی اذان دے سکتا ہے۔
بینک کے سودی رقم کا مصرف اور اس کو مدرسہ ومسجد میں دینے کا حکم
سوال :بینک اکاؤنٹ سے حاصل شدہ سودی پیسے مدرسہ یا مسجد میں صدقہ کرنے کا حکم کیا ہے اور سودی پیسے کا مصرف کیا ہے ؟
جواب۔۔ بینک سے ملنے والی رقم سود ہونے کی وجہ سے حرام ہے،بینک وغیرہ سے سودی رقم وصول کرنا جائز ہے؛ اپنےاستعمال میں لاناجائزنہیں بلاارادہ ثواب کسی کام میں لگائی جاے۔ البتہ اگر وصول کرلی ہو اور وہ رقم اکاؤنٹ میں آگئی ہو تو اس پر توبہ واستغفار کرنا لازم ہے اور اب اس سودی حرام رقم کا مصرف یہ ہے کہ اسے مستحق زکواۃ شخص کو ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کردیاجائے،اسی طرح مدرسے کے زکواۃ فنڈ میں بھی یہ رقم دی جاسکتی ہے؛ کیوں کہ وہ مدرسے کے مستحق طلبا پر خرچ ہوتا ہے،البتہ سودی رقم مدرسہ کی انتظامیہ کو دیتے وقت صراحت کردی جائے کہ یہ سودی رقم ہے ،تاہم زیر نظر مسئلہ میں سودی رقم کا مدرسہ کے طلبہ میں خرچ کرنا بہتر اور مناسب نہیں ہے ،کسی عام غریب کو بلا نیت ثواب یہ رقم دے دی جائے ،باقی یہ رقم مسجد میں نہیں دی جاسکتی ۔نیز یہ بھی ملحوظ رہے کہ اکاؤنٹ ہولڈر پر ضروری ہے کہ جتنا جلد ہوسکے سودی اکاونٹ تبدیل کرکے اسے کرنٹ اکاؤنٹ میں منتقل کردیا جائے ،جس میں سود نہیں ملتا ۔
سوال :ایک شخص کی نوکری ہے اور اس نے اپنا پیسہ بینک میں جمع کر رکھا ہے، اب جب کہ اُس نے بہت دنوں کے بعد اپنا بینک ڈیٹیل چیک کیا تو اسے پتا چلا کہ بینک میں انٹرسٹ کا پیسہ تقریبًا ایک لاکھ روپیہ ہے تو کیا اس پیسہ کو نکال کر مسجد یا مدرسہ کے بیت الخلا میں استعمال کر سکتے ہیں؟ اگر پیسہ بینک میں چھوڑ دیں تو ڈر ہے کے اُس پیسے کو حکومت مسلمانوں کے خلاف غلط استعمال کرے گی؟
جواب۔۔ صورتِ مسئولہ میں سودی رقم اگر بینک کو واپس کرنا ممکن نہ ہو تو مذکورہ سودی رقم ثواب کی نیت کے بغیر غرباء و مساکین میں تقسیم کرنا واجب ہوگا، مذکورہ رقم مسجد یا مدرسہ کے بیت الخلا کی تعمیر میں صرف کرنا جائز نہ ہوگا۔بعض علماءکےنزدیک لیکن متاخرین کےنزدیک جائز ہے ۔ملحوظ رہے کہ بینک میں سودی اکاؤنٹ کھلوانا جائز نہیں ہے، لہٰذا اگر اپنے اختیار سے سودی اکاؤنٹ کھولاہو تو اسے فوری طور پر بند کروادیا جائے، یا کرنٹ اکاؤنٹ میں تبدیل کردیا جائے۔ نیز غیرمسلم ملک میں بھی مسلمان کے لیے سودی معاملہ کرنا جائز نہیں
سوال:۔نائٹ شفٹ کی ڈیوٹی کرنا کیسا ہے ؟کیونکہ اللہ تعالی نے رات کو تو سونے کے اور دن کو کمانے کے لئے بنایا ہے ؛لیکن میں نے فضائل اعمال کی تعلیم میں سنا ہے جس کا مفہوم ہے کہ رات میں تین گروہ بن جاتے ہیں؛ ایک عبادت میں مصروف ہوجاتا ہے تو اس کی رات اس کے لیے اجر بن جاتی ہے؛ دوسری جماعت برائیوں میں لگ جاتی ہے، جس کی وجہ سے ان کی رات ان کے لئے وبال ہے اور تیسری جماعت سو جاتی ہے تو وہ ایسا ہےکہ نہ اس نے کچھ کمایا اور نہ کھویا ۔۔۔تو کیا رات کو کام کرنے سے حلال رزق جو عبادت ہے اس کا کرنا کیسا ہوگااور اللہ تعالیٰ نے دن کو معاش کمانے اور رات سونے کے لئےبنایا ہے اس کا کیا مطلب ہے۔؟
جواب۔۔انسان دن میں رزق حلال کمانے کی کوشش کرے اور رات کو آرام کرے، قرآن کریم کی کئی آیات سے یہی معلوم ہوتاہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دن میں سونا یا رات میں کاروبار ،نوکری اور ڈیوٹی کرنا، ناجائز و گناہ ہے، بلکہ رات میں کام اور دن میں آرام کرنا بھی جائز ہے، دن میں آرام جیسے قیلولہ کرنا اور راتوں میں کام کرنا جیسے دکان کھولنا اور مکان کی حفاظت کے لئے رات میں چوکیداری کرنا اسی طرح کئی ایسے کام ہوتے ہیں جو دن میں پورے نہیں ہوتے ، جب دن چھوٹے ہوں اور راتیں طویل ہوں، تو دن میں پورے نہ ہونے والے کام رات میں کئے جاتے ہیں، کئی ایسے کام ہیں جو دن و رات بلاو قفہ جاری رہتے ہیں ان کو جاری رکھنے کے لئے ملازمین کی ضرورت رہتی ہے تاکہ کام نہ رکے، لہٰذا جو دن کے بجائے رات میں کام کریں، ان کو گناہ گار کہنا جائز نہیں۔ ہاں اگر کوئی کام ہی ناجائز ہو، تو وہ دن میں کیا جائے یا رات میں وہ بہر صورت ناجائز ہی رہے گا۔
سوال :میرے اور میری بیوی کے درمیان 13 سال سے نہیں بن پارہی، کئی بار وہ میکے جا چکی ہے۔ اب گزشتہ 2 ماہ سے بغیر بتائے گھر چھوڑ کر کراچی والدین کے ساتھ رہ رہی ہے۔ اس کا تھوڑا ذہنی توازن بھی ٹھیک نہیں ہے ۔ اب اس سے میں رشتہ برقرار نہیں رکھ سکتا ،میں نے 13 سال سے بہت کوشش کی کہ اس سے نباہ کروں ،مگر ناکامی ہوئی ۔ براہِ کرم شریعت کے مطابق طلاق کیسے دوں؟
جواب۔۔ اولاً تو اب بھی نباہ کی ہی کوشش کی جائے، اگر کسی کی فہمائش یا کسی بھی طریقے سے بات بن سکتی ہو تو اس سے بھی دریغ نہ کیا جائے، لیکن اگرنباہ اورصلح کی کوئی صورت نہ ہو اورطلاق کے سواکوئی چارہ ہی نہ رہے تو طلاق دینے کابہترطریقہ یہ ہے کہ عورت کوپاکی کی حالت میں ایک طلاق رجعی دے دی جائے،ایک طلاق کے بعد عدت کے اندراگرچاہیں تورجوع کرلیں اور رجوع نہ کرناچاہیں تو عدت گزرنے کے بعد عورت آزادہوگی،وہ کسی اورسے نکاح کرناچاہے تو درست ہوگا۔ اس کو شریعت میں’’طلاق احسن‘‘ کہتے ہیں۔ایک طلاق رجعی کے بعد عورت کی عدت گزرجائے پھرصلح کی کوئی صورت نکل آئے تو نئے مہر اور شرعی گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح بھی ہوسکتاہے۔ایسی صورت میں آئندہ دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا۔
سوال :ایک وقت میں تین طلاق کاحکم کیا ہے؟
جواب۔۔بیک وقت تین طلاقیں دینا شرعاً ناپسندیدہ ہے، اس لیے بیک وقت تین طلاقیں نہ دی جائیں۔ لیکن اگر تین طلاقیں ایک ساتھ دے دی جائیں تو بھی واقع ہوجاتی ہیں،اورتین طلاق کے بعد رجوع کی گنجائش بھی نہیں رہتی۔مفتی عبدالرحیم لاجپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’بلاوجہ شرعی طلاق دیناسخت گناہ ہے،اللہ تعالیٰ کوناراض کرنااور شیطان کوخوش کرناہے،البتہ اگر کسی وجہ سے شوہراور بیوی میں ایسی رنجش ہوگئی ہوکہ ایک دوسرے کے حقوق پامال ہورہے ہوں،اورطلاق کے بغیرچارہ ہی نہ ہوتوطلاق دینے کاسب سے بہترطریقہ یہ ہے کہ شوہرایسے وقت میں جس میں صحبت نہ کی ہو صرف ایک طلاق دے،غصہ اور جوش میں آکرتین طلاق دینے کاجورواج چل پڑاہے،بلکہ بہت سے لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ تین طلاق کے بغیرطلاق ہی نہیں ہوتی یہ بالکل غلط ہے،ایک طلاق دینے سے بھی طلاق ہوجاتی ہے،اورشوہرعدت میں رجوع نہ کرے تو عدت پوری ہونے کے بعد عورت بائنہ(یعنی نکاح سے جدا)ہوجاتی ہے،اور جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے،جوش اورغصہ میں آکرتین طلاق دے دیتے ہیں ،جب جوش اور غصہ ختم ہوتاہے توپچھتانے اور پریشانی وپشیمانی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا، اگرایک طلاق دی ہوتی اور اس کے بعد شوہرکاارادہ بیوی کواپنے پاس رکھنے کاہوتوبہت آسان ہے، صرف قولاً یاعملاً رجوع کرلیناکافی ہے،عورت اس کے نکاح میں رہے گی،رجوع پرگواہ بنالینابہترہے،اوراگرعدت پوری ہوگئی اوراس کے بعد دونوں کاارادہ ساتھ رہنے کاہوجائے تودونوں کی رضامندی سے تجدیدنکاح (دوبارہ نکاح کرنا)کافی ہوگا،البتہ اس کے بعد شوہردوطلاق کامالک ہوگا‘‘۔
سوال :میری عزیزہ کے شوہر نے طلاق کا اسٹامپ پیپر تیار کروایا جس میں لکھا ہے کہ گواہوں کی موجودگی میں بیوی کو طلاق دیتا ہوں (طلاق طلاق طلاق) اور ابھی اس پر شوہر نے خود یا گواہوں نے دستخط نہیں کئے اسٹامپ پیپرپر رجسٹریشن والی تصدیقی مہر لگی ہوئی ہے. اب پوچھنا یہ ہے کہ طلاق کس دن سے مانی جائے گی جس دن یہ اسٹامپ لکھوا کر اٹیسٹ کرایا یا کہ گواہوں کی موجودگی میں طلاق دے دی یا جس دن دستخط ہوں گے اس دن سے؟
جواب۔۔ صورتِ مسئولہ اگر طلاق نامہ شوہر نے خود لکھا ہے، یا شوہر نے خود کسی کو لکھنے کا حکم دیا ہےتو اسٹامپ پیپر لکھنے کے وقت سے طلاق ہوگی، خواہ دستخط کیے ہوں یا نہیں۔نجم الفتاویٰ میں ہے: جب شوہر نے تحریر نہیں لکھی اور نہ ہی لکھنے کا حکم دیا تو طلاق واقع نہیں ہوگی کیونکہ طلاق بالکتابت میں اقرار ضروری ہےاور دستخط بھی اقرار کی ایک صورت ہے لیکن اس کیلئے یہ ضروری ہے کہ دستخط کرنے والے کو تحریر میں طلاق موجود ہونے کا علم ہو۔ تویہاں پر اس کو یہ علم ہے کہ یہ طلاق نامہ ہے تو اس وجہ سے ایک طلاق واقع ہوگئی ہے۔دیگرعلماء نے بھی اس طرح کے مسئلہ میں یہی فتوی دیاہے :اگر مذکورہ طلاق نامہ سائل نے نہیں بنایا اور نہ ہی پڑھا تھا، لیکن اسے یہ معلوم تھا کہ یہ طلاق نامہ ہے، لیکن اس میں موجود طلاقوں کی تعداد پتہ نہیں تھی تو اس پر دستخط کرنے کی وجہ سے سائل کی بیوی پر ایک طلاق واقع ہوگئی ہے، عدت میں رجوع کرنے کی وجہ سے نکاح برقرار رہے گا، البتہ آئندہ کے لیے دو طلاقوں کا حق باقی رہے گا۔یہ بات ذہن میں رہے کہ اگر آپ کو اس بات کا علم تھا کہ اس طلاق نامہ میں تین طلاقیں لکھی ہوئی ہیں تو اس صورت میں تین طلاق واقع ہوجائیں گی اور آپ کے لیے نہ رجوع جائز ہے اور نہ ہی بغیر شرعی حلالہ کے دوبارہ نکاح جائز گا۔(البقرۃ،230)
سوال :طلاق دینے کےبعد عدت کےاندرنکاح کیاجاسکتا ہے ایک تحریری طلاق تھی ایک زبانی؟
جواب۔۔ عدت کےاندرطلاق رجعی کی صورت میں رجوع ہوجاتاہے اگردوطلاق ہوں تورجوع ہوجاے عدت گزرنے کےبعد نیا نکاح نیا مہرکےساتھ رجوع ہوسکتاہےشرط یہ ہے کہ رجوع دوران عدت ہو خواہ عورت راضی ہو یا نہ ہو۔۔ اگر عدت گزرنے کے بعد رجوع کیا تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور طلاق ہوجاے گی۔یادرہے کہ آپ کی تحریر سے یہ بھی معلوم ہوتاہے آپ نے ایک طلاق 2020 میں زبانی دی تھی اور ایک طلاق نامہ پر دستخط کرنے کی وجہ سے واقع ہوگئی ہے تو گویا آپ اپنی بیوی کو دوطلاق رجعی دے چکے ہیں اب آپ کے پاس صرف ایک طلاق کاحق باقی رہ گیاہے،اگر آپ نے دوبارہ طلاق دینے کی غلطی کی تو اس صورت میں آپ کو رجوع کا حق نہیں ہوگا۔
سوال :شادی کے موقع پر لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مدد کرتے ہیں، کچھ لوگ اسے سود کہتے ہیں، کیا یہ درست ہے؟ یعنی میں نے کسی کی شادی پر1000روپے دیے تھے۔ جب وہ میرے شادی پر آیا تو اس نے 1500روپے دیے۔ جب کہ نہ میںنے مانگے ہیں۔ اور یہ طریقہ عرصہ دراز سے چل رہا ہے؟
جواب۔۔ واضح رہے ہدیہ وہ عطیہ ہے جو دوسرے کا دل خوش کرنے کے لیے دیا جاتاہے؛ تاکہ اللہ تعالی کی رضامندی حاصل ہو، ہدیہ اس نیت سے دینا کہ مجھے وہ اس کا بدلہ میں ہدیہ دے گا ، یہ ہدیہ نہیں ہے۔اسی طرح ہدیہ دینے پر کسی کو مجبور کرنا بھی جائز نہیں ہے، بعض علاقوں لوگ میزلگاتے اور کاپی پنسل سے نوٹ کرتے جوکہ جائزنہیں ہےحدیث شریف میں ہے کہ کسی مسلمان کا مال بغیر اس کی خوش دلی کے لینا حلال نہیں ہے۔ شادی کے موقع پر ہر خاندان اور علاقہ کا عرف مختلف ہوتا ہے، اگر کسی خاندان کا عرف یہ ہے کہ وہ شادی کے موقع پر لفافہ ہدیہ اور ہبہ کے طور پر دیتے ہوں، اس کو لکھتے نہ ہوں اور بعد میں اتنی ہی رقم ان کی شادی میں دینے کی نیت نہ ہو تو یہ ہدیہ ہے، اس کا لین دین جائز ہے، شرعاً کچھ حرج نہیں۔اور اگر ایک دوسرے کو لفافوں کا دینا عوض اور بدل کے طور پر ہوتا ہو کہ جتنے فلاں نے دیے ہیں ان کی شادی میں اس سے زیادہ رقم واپس کرے گا، اور اسے نوٹ کیا جاتاہو تو یہ ”نیوتہ“ کی رسم کہلاتی ہے ، اور شرعًا یہ سودی قرض کے زمرے میں آجاتی ہے اور سودی قرض لینا دینا ناجائز اور حرام ہے، اور اگر دینے والے اس نیت سے دیتے ہیں کہ صاحبِ دعوت ان کی دعوت میں اتنی ہی رقم واپس کرے گا تو یہ قرض ہے، اور اسی قدر واپسی لازم ہے۔قرآنِ کریم سے بھی اس بری رسم کے ناجائز ہونے کا اشارہ ملتا ہے، جیساکہ سورہ روم میں ہے:’’ اور جو چیز تم اس غرض سے دوگے کہ وہ لوگوں کے مال میں پہنچ کر زیادہ ہوجاوے تو یہ اللہ تعالی کے نزدیک نہیں بڑھتا۔‘‘ (سورۃ الروم، رقم الآیۃ:39، ترجمہ:بیان القرآن)
مفسرین نے نیوتہ کے لین دین کو بھی اس آیت کا مصداق ٹھہراتے ہوئے سود ہونے کی بنا پر ناجائز قرار دیا ہے، جیسے کہ معارف القرآن میں مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں:’’اس آیت میں ایک بری رسم کی اصلاح کی گئی ہے جو عام خاندانوں اور اہل قرابت میں چلتی ہے وہ یہ کہ عام طور پر کنبہ رشتہ کے لوگ جو کچھ دوسرے کو دیتے ہیں اس پرنظر رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے وقت میں کچھ دے گا کبھی رسمی طور پر کچھ زیادہ دے گا، خصوصاً نکاح، شادی وغیرہ کی تقریبات میں جو کچھ دیا لیا جاتا ہے اس کی یہی حیثیت ہوتی ہے جس کو عرف میں ”نیوتہ“ کہتے ہیں۔ اور قرآن کریم نے اس زیادتی کو لفظ ربو سے تعبیر کرکے اس کی قباحت کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ ایک صورت سود کی سی ہوگئی‘‘۔(معارف القران )
لہٰذاجس برادری میں نیوتہ کی رسم ہے، وہاں اگر شادی یا ولیمہ کے موقع پر کچھ دیا جاتا ہے جس کا باقاعدہ لینے والے اندراج بھی کرتے ہیں یا دینے والی نیت واپس ملنے کی ہو اور اس کا عرف بھی ہو تو ایسی صورت میں اس کا لین دین جائز نہیں ہوگا۔البتہ اگر واپس لینے کی نیت نہ ہو، خالص ہدیہ یا مدد و تعاون ہو تو اس میں کوئی قباحت نہیں، بلکہ شریعت میں مطلوب ہے، اور شادی، ولیمہ میں رقم وغیرہ دیتے ہوئے خالص ہدیہ کی ہی نیت کرنی چاہیے۔
مفتی صاحب سے آپ اس نمبر اور ای میل پر رابطہ کرسکتے ہیں