شیخ محمد امین
وقت کی دھول بہت سے ناموں کو تاریخ کے اوراق سے مٹا دیتی ہے، لیکن کچھ شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جو زمانے کی سختیوں کے باوجود ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔ امام حریت سید علی شاہ گیلانیؒ ایسی ہی ایک جاوداں شخصیت ہیں۔ وہ ایک چراغ تھے جو ظلمتوں کے سمندر میں روشن رہا، ایک صدا تھے جو غلامی کی زنجیریں توڑنے کی پکار بنی، اور ایک امام تھے جو کشمیری عوام کی مزاحمت اور حریت کی علامت بن گئے۔ وہ محض ایک فرد نہیں، بلکہ ایک عہد، ایک نظریہ اور استقامت کا استعارہ تھے۔ ان کی زندگی کے اوراق صبر، علم، قربانی اور جرات سے لبریز ہیں۔ سید علی گیلانیؒ کی نگاہ میں دنیاوی اقتدار اور وقتی مصلحتوں کی کوئی وقعت نہ تھی۔ وہ فرماتے تھے کہ جہاں دہائیوں سے قابض فوج کا تسلط ہو، وہاں کچھ افراد کا تقسیم ہو جانا یا اقتدار کے لالچ میں دشمن کے ساتھ کھڑا ہونا غیر فطری نہیں۔ یہ مفتوح قوموں کی ایک آزمائش ہے، لیکن یہ تحریکِ آزادی کے لیے مایوسی کا باعث نہیں بننا چاہیے۔ وہ کہتے تھے کہ کشمیر کی سرزمین اب بھی آزادی کی امنگوں سے لبریز ہے، اور یہ آگ کبھی نہیں بجھے گی۔ ان کی جدوجہد تین بنیادی ستونوں پر قائم تھی ۔انفرادی اور اجتماعی زندگی کو اسلام کی روشنی میں استوار کرنا۔ جموں و کشمیر پر بھارتی قبضے کو غیر قانونی سمجھ کر اس کے خلاف جہدوجہداور امتِ مسلمہ کو وطن، نسل، زبان اور مسلک کی تقسیموں سے آزاد کر کے ایک تسبیح کی طرح پرو دینا۔ان کے نزدیک مسئلہ کشمیر محض سیاسی تنازع نہیں، بلکہ ایک عہد تھا جس کی گواہی اقوامِ متحدہ کی قراردادوں نے دی۔ وہ کہتے تھے کہ یہ قراردادیں وقت کے ساتھ پرانی نہیں ہوتیں، کیونکہ انسانوں کے بنیادی حقوق وقت کی نذر نہیں ہوتے۔ بھارت نے حیدرآباد اور جوناگڑھ میں رائے شماری کے اصول کو تسلیم کیا، مگر کشمیر میں اسے دفن کر دیا۔امام گیلانیؒ اس دوغلے پن کو ہمیشہ بے نقاب کرتے رہے۔

سید علی شاہ گیلانیؒ 29 ستمبر 1929 کو ضلع بانڈی پورہ کے گاؤںزوری منز زینہ گیر میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کی اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور کے اورینٹل کالج میں داخلہ لیا، جہاں انہوں نے فارسی اور اسلامیات میں مہارت حاصل کی۔ نوجوانی میں ہی قرآن و سنت سے ان کی گہری وابستگی ان کی شخصیت کا بنیادی حوالہ بن گئی۔ علامہ اقبالؒ کے افکار اور سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تحریروں نے ان کی فکر کو جلا بخشی۔ اقبالؒ کو وہ حکیم الامت اور سیدمودودیؒ کو امام العصر مانتے تھے۔ اقبالؒ نے ان کے دل میں خودی کا چراغ جلایا اور آزادی کا خواب دیا، جبکہ امام مودودیؒ کی تحریروں نے اس خواب کو منظم جدوجہد کا نقشہ عطا کیا۔1950 کی دہائی میں انہوں نے جماعتِ اسلامی میں شمولیت اختیار کی، جو ان کی فکری اور سیاسی زندگی کا نقطہ آغاز ثابت ہوئی۔ وہ کئی بار رکن اسمبلی منتخب ہوئے، لیکن اسمبلی کو محض ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کا منبر سمجھتے تھے۔ ان کا لہجہ اندر اور باہر یکساں بے باک اور حق پر مبنی ہوتا تھا۔
امام گیلانیؒ سراپا عاشق رسولﷺ تھے۔ جب وہ نبی کریم ﷺ کا ذکر کرتے، ان کی آنکھیں نم ہو جاتیں اور لہجہ لرز اٹھتا۔ وہ فرماتےہماری آزادی اس وقت مکمل ہوگی جب ہم حضورﷺ کے غلام بن کر اپنی زندگی سنواریں گے۔ان کا ہر عمل سنت رسول ﷺ کی عملی تفسیر تھا۔ قید، نظربندی، بیماری اور بڑھاپے نے ان پر دستک دی، لیکن وہ کبھی نہ ڈگمگائے۔ قاتلانہ حملوں، اقتدار اور دولت کی پیشکشوں کے باوجود وہ اپنے اصولوں پر فولاد کی طرح ڈٹے رہے۔ ان کا ہر لفظ ایک اعلان حق تھا۔سید علی گیلانیؒ صرف سیاسی رہنما ہی نہیں، ایک صاحب قلم بھی تھے۔ ان کی زندگی کا بڑا حصہ جیل کی نذر ہوا، لیکن وہ قفس کی تنہائی کو مطالعے اور تحریر کے لیے غنیمت جانتے تھے۔ روداد قفس اور مقتل سے واپسی جیسی کتابیں انہی دنوں کی دین ہیں۔ وہ کہتے تھے وقت اللہ کی سب سے بڑی امانت ہے، اسے بے مقصد ضائع کرنا خیانت ہے۔جماعتِ اسلامی کے اجتماعات کی روداد لکھنے سے شروع ہونے والا یہ قلمکار اخبار اذان کا مدیر اور مستقل کالم نگار اور مصنف بنا۔ ان کی تحریریں ان کے افکار کی طرح جرات مندانہ اور بے لاگ تھیں۔
سید علی گیلانیؒ کے قریبی رفقا میں شہید محمد اشرف صحرائیؒ اور سید صلاح الدین احمد نمایاں ہیں۔ یہ دونوں رہنما ان کے دست راست اور مرید تھے۔ شہید صحرائیؒ نے اپنی آخری سانس تک سید گیلانیؒ کے افکار کو عملی شکل دی اور اسی راہ میں شہادت کو گلے لگایا۔ سید صلاح الدین احمد نے بھی مزاحمت کے سفر میں ان کی فکر اور پیغام کو بلند رکھا۔ یہ رشتہ محض سیاسی یا عسکری نہیں، بلکہ قلبی، روحانی اور تحریکی تھا، جس نے تحریکِ حریت کو ایک تسلسل عطا کیا۔

امام سید گیلانیؒ کی جدوجہد صرف کشمیر تک محدود نہ تھی۔ وہ ہر مسلم کاز کے ساتھ کھڑے رہے۔ فلسطین ہو یا کوئی اور خطہ، وہ ہر مظلوم کے زخم کو اپنا زخم سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک امت مسلمہ ایک جسم کی مانند ہےجہاں درد ہو، وہ پورے بدن میں سرایت کرتا ہے۔ وہ فرماتے ہیںاگر کچھ حکومتیں خوف سے خاموش ہیں، تو یہ ان کی کمزوری ہے، ہماری نہیں۔آل پارٹیز حریت کانفرنس کے چیئرمین کے طور پر انہوں نے تحریک کو واضح سمت دی۔ ان کا نعرہ ’’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘‘کشمیری عوام کے دلوں کو جوڑنے والا پیغام بنا۔ ان کے نزدیک پاکستان صرف ایک ملک نہیں، بلکہ ایمان کا مرکز اور کشمیریوں کی فطری منزل تھا۔ وہ کہتے تھے کہ جتنا یقین خدا کے وجود پر ہے، اتنا ہی یقین اس بات پر ہے کہ بھارت کا قبضہ غاصبانہ ہے اور اس کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ وادی کے بزرگوں کی وصیت کہ ’’قبروں پر آکر کہنا پاکستان بن گیا ہے‘‘اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیری عوام کی اکثریت پاکستان کو اپنی امید سمجھتی ہے۔تاہم، وہ اندھی عقیدت کے قائل نہ تھے۔ جب پرویز مشرف نے چار نکاتی فارمولہ پیش کیا، تو انہوں نے اسے کھل کر مسترد کیا اور کہا کہ یہ کشمیری عوام کی قربانیوں سے غداری ہے۔ وہ پاکستانی عوام کے دل کے قریب تھے، لیکن حکمرانوں کی مصلحت پسندی پر ان کی تنقید ہمیشہ دوٹوک رہی۔
یکم ستمبر 2021 کو یہ چراغ بظاہر بجھ گیا، لیکن بھارتی حکمرانوں نے ان کی عظمت سے خائف ہو کر ان کی میت کو عوام کے حوالے کرنے کے بجائے رات کے اندھیرے میں دفن کیا۔ وادی پر کرفیو لگا دیا گیا تاکہ عوام اپنے محبوب رہنما کی قبر تک نہ پہنچ سکیں۔ یہ منظر تاریخ کے یزیدی کرداروں کی یاد دلارہا ہے، لیکن یہ بھی یاد رہے کہ امام سید علی گیلانیؒ کی روشنی کسی کرفیو یا تاریکی کی پابند نہ تھی۔ وہ لاکھوں کروڑوں دلوں میں زندہ ہیں۔الحمدللہ میں خود کو خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ مجھے بچپن سے ان کی قربت نصیب رہی۔ جلاوطنی کے دنوں میں ان سے فون پر رابطہ میرے دکھوں کا مرہم بنتا تھا۔ قبلہ سیدگیلانیؒ کی ذات ایسی ہی تھی کہ مجھےان کے کسی حکم یا پالیسی سے کبھی اختلاف نہیں ہوا۔ ان کی ہر بات دل کی گہرائیوں سے سچ جانی اور مانی ۔یقین کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ امام سید علی گیلانیؒ اپنی زندگی میں امام حسینؓ کے نقش قدم پر چلنے والے مرد مومن تھے۔ وہ دوستوں کے لیے ریشم اور دشمنوں کے لیے فولاد سے زیادہ سخت تھے۔ ان کی جدوجہد محض ایک سیاسی باب نہیں، بلکہ ایک روحانی ورثہ ہے۔ وہ بہادر تھے، نڈر تھے، اور اللہ کے سوا کسی کا خوف ان کے دل میں نہ تھا۔ ان جیسا قائد اب ملنا محال ہے۔علامہ اقبال نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا ہے کہ ۔۔ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔ قابض قوتیں ان کی جدائی کے بعد سکون کا سانس لے رہی ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کا چراغ آج بھی جل رہا ہے اور ہمیشہ جلتا رہے گا۔ وہ چراغ جو ظلمت کے طوفان میں روشنی بکھیرتا رہا،کروڑوں دلوں میں جل اٹھا ہے۔ وہ حریت کا امام تھا اور رہتی دنیا تک حریت کا امام رہے گا۔ان شا اللہ