(گذشتہ سے پیوستہ)
وسیم حجازی
یہ نومبر 1998 ء کا پہلا یا دوسرا ہفتہ تھا۔کسی ساتھی نے مجھے بتایا کہ ایک نیا گروپ خونی لکیر پار کرکے آیا ہے جس میں آپکا ماموں زاد بھائی بھی ہے۔ میرا ماموں زاد بھائی؟ میں سن کے حیران رہ گیا کہ میرا کوئی ماموں زاد بھائی اتنی عمر کا نہیں ہے کہ وہ خونی لکیر پار کرسکے۔ایک دو دن اسی شش و پنج میں گذرے کہ آخر یہ کون ہے جسے اس ساتھی نے میرا ماموں زاد بھائی بتایا۔تیسرے دن یہ گروپ مظفرآباد دفتر پہنچا۔ میری آنکھیں اس وقت پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جب اس گروپ کے چند ساتھی اسی دن مجھ سے ملنے شوکت لین مظفرآباد آگئے جن میں میرا ماموں زاد بھائی نہیں بلکہ میرا پھوپھی زاد بھائی ریاض احمدساکن اگلرپٹن بھی شامل تھا۔ہم دونوں ایک دوسرے سے گلے ملے اور بیاختیار ہم دونوں کی آنکھوں سے آنسو ںرواں ہوئے۔
ریاض نے مجھے وہیل چئیر پر دیکھا تو روتے روتے اسکی ہچکیاں بند ہوگئی اور میں اسے دلاسہ دیتا رہا۔پانچ سال کے بعد یہ ہماری پہلی ملاقات تھی۔گھوم پھر کے سارا ماضی میری آنکھوں کے سامنے چھا گیا۔ہم نے دن بھر خوب گپ شپ کی۔ میں اس سے اپنے گاؤں کے سارے حالات پوچھتا رہتا اور وہ جواب دیتا رہتا۔میرے جانے کے بعد وہاں کی ساری کہانیاں اس نے مجھے سنائی. پانچ سال کی ساری روداد میں سنتا رہا اور وہ بولتا رہا۔آہ! اے وطن تیری جدائی نے کتنا تڑپایا تھا۔اپنوں سے بچھڑنا دل پر کتنا شاق گذرتا ہے یہ وہی جانتا ہے جسے اپنوں سے بچھڑ کر جینا پڑتا ہے۔میں نے اپنے پھوپھی زاد بھائی ریاض احمد کاجہادی نام ابراراحمد رکھ دیا اور اسکے بعد سب اسے ابرار کے نام سے ہی جاننے لگے۔ مجھے یاد آیا۔۔۔ابرار گھر میں ہی گیارہویں جماعت کے امتحانات کی تیاری میں مصروف تھا اور میں نے بارہویں جماعت میں داخلہ لیا۔ہم دونوں میڈیکل کے طالب علم تھے۔اب جبکہ میں ہائیر سیکنڈری سکول جاتا تو ابرار کے بغیر جانا مجھے عجیب سا لگتا۔کئی مہینے اسی طرح گذر گئے اور ہم دونوں جدائی کا زہر پیتے رہے۔
جب میری بارہویں جماعت کے امتحانات میں صرف دس دن باقی رہ گئے تھے تو تقدیر نے میرا رخ کسی اور ہی منزل کی طرف پھیر دیا۔ میں نے اکتوبر 1993 میں پڑھائی کو خیرباد کہا اور خونی لکیر عبور کرکے آزاد کشمیر کے بیس کیمپ چلا گیا۔اسکے بعد ابرار کے ساتھ میری خط و کتابت ہوتی رہی۔جب کمانڈرشاکرغزنوی نے میدانِ کارزار میں قدم جما لئے تو عسکری حکمت عملی کے تحت عسکری صفوں میں نئے ساتھیوں کو بھرتی کرنے کا کام شروع کیا۔اس سلسلے میں انہیں عسکری تربیت کیلئے سرحد پار بھیجا جاتا۔انہی نئے سرفروشوں میں ایک دن شاکر غزنوی نے ابرار کو بھی شامل کیا۔روانگی کے وقت شاکر غزنوی نے میرے نام ایک خط لکھا اور ابرار کے سپرد کیا۔ابرار ان دنوں میڈیکل سبجیکٹ میں سیکنڈ ائیر کا طالب علم تھا اور بمنہ کالج سرینگر میںزیر تعلیم تھا۔
ابرار نے اکتوبر 1998 میں اپنی تعلیم کو خیرآباد کہا اور کچھ دیگر ساتھیوں سمیت سرحد پار کرکے بیس کمیپ پہنچنے میں کامیاب ہوا۔شوکت لین میں مجھ سے ملاقات کے دوران اس نے شاکر غزنوی کا خط میرے ہاتھ میں تھما دیا۔شاکر غزنوی کی بدولت تقدیر نے ایک بار ہم دونوں کو پھر سے ملادیا۔اب ہم دونوں کسی اور ہی سرزمین پر کسی اور ہی منزل کے راہی تھے۔ابرار نے بہت چاہا کہ وہ مظفرآباد میں ہی میرے پاس ٹھہرے لیکن تنظیم کے احکامات کے تحت اسے پہلے عسکری تربیت حاصل کرنی تھی. لہٰذا تنظیم نے اسے دیگر ساتھیوں کے ساتھ عسکری تربیت کیلئے معسکر بھیج دیا جہاں اس نے چار مہینے کی ابتدائی عسکری تربیت حاصل کی۔واپس آکے اس نے سیدھے مظفرآباد کا رخ کیا اور میرے پاس آگیا۔یہاں کئی مہینے اس نے میرے ساتھ گذارے۔
مظفرآباد میں کئی مہینے میرے ساتھ رہ کر ابرار نے میری بے لوث خدمت کی۔پھر وہ کیمپ چلا گیا اور دوبارہ سال 2000 میں میرے پاس آیا جب میں اسلام آباد میں تھا۔وہاں اس نے کئی مہینے میرے ساتھ گذارے اور پھر تنظیم کے حکم پر کیمپ واپس چلا گیا۔اسکے بعد سال 2001 میں وہ دوبارہ میرے پاس آیا جب میں راولپنڈی میں تھا۔یہاں کئی مہینے میرے ساتھ گذارنے کے بعد تنظیم نے اسے خصوصی عسکری تربیت کیلئے ایک گروپ کے ساتھ معسکر بھیج دیا جہاں اس نے چھ مہینے کی تربیت حاصل کی۔تربیت حاصل کرتے ہی اس گروپ کو میدانِ کارزار میں جانے کا حکم ہوا۔یہ سال 2002 تھا۔جانے سے پہلے ابرار مجھ سے ملنے راولپنڈی آیا. جب اس نے مجھ سے کہا کہ اب مجھے میدانِ کارزار جانا ہے تو میں ہکا بکا رہ گیا۔میرے دل کی دھڑکنیں تیز ہوئی۔


میں نے کوشش کی کہ اسے فی الحال روک لوں لیکن وہ نہ مانا کیونکہ یہ تنظیم کا حکم تھا۔اب اسے رخصت کرنے کے سوا اور کوئی چارہ بھی نہ تھا۔شام کا وقت تھا،ہم ایک دوسرے سے گلے ملے اور نمناک آنکھوں سے میں نے اسے الوداع کیا۔میں نے ایک ویڈیو کیسٹ کی سی ڈی اسکے حوالے کی جس میںکمانڈر شاکر غزنوی اور میری ویڈیو تھی جو سال1995 میں راجن پور کے ایک تقریری پروگرام میں وہاں کے سکول سٹاف نے بنائی تھی۔یہ کیسٹ شہیدکمانڈرشاکر غزنوی کے گھر والوں تک پہنچانی مقصود تھی۔ابرار میری آنکھوں سے اوجھل ہوگیا اور میرے دل میں ہزاروں وسوسوں نے جنم لیا۔کیا یہ وقتِ جدائی ہے؟کیا اب دوبارہ کبھی ہم مل سکیں گے؟ ابرار کا آگے کا سفر کیسا رہے گا؟ کیونکہ ابرار اْس منزل کی طرف جا رہا تھا جہاں ہر رہگذر پر موت باہیں پھیلائے کھڑی تھی۔بچھڑنے کا یہ مرحلہ کتنا ہولناک اور کتنا دردناک تھا۔قریباً دو ہفتوں کے بعد خبر موصول ہوئی کہ ابرار کا گروپ خیریت سے سرحد پار کرکے میدانِ کارزار میں پہنچنے میں کامیاب ہوا ہے۔لیکن اس دوران راستے میں ابرار اپنے اس گروپ سے بچھڑ گیا اور آگے کا سفر ابرار نے انتہائی دشوار گذار حالات سے گذر کر طے کیا۔اس دوران اس نے گھاس کھا کے جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنے کی کوشش کی یہاں تک کہ وہ ایک بستی میں ایک جونپڑے تک پہنچ گیا جہاں اس نے کھانا تناول کیا۔مخبری کے ڈر سے اس نے ان سب کو اس جونپڑی میں ہی بند کر کے دورازے کے باہر تالا لگایا اور اگلے پڑاؤ کی طرف روانہ ہوا۔موت سے آنکھ مچولی کھیلتے کھیلتے،کئی دنوں کے تھکا دینے والے اور صبرآزما سفر کے بعد بالآخر وہ میدانِ کارزار کے دیگر ساتھیوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوا۔
میدانِ کارزار میں پہنچنے کے کچھ عرصہ بعد ہی ابرار نے مجھے خط بھیجا جس میں اس نے اپنی ایک تازہ فوٹو بھی ساتھ بھیجی تھی۔ میدانِ کارزار میں اس نے اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی پوری کرنے میں مصروف رہے کئی بار وہ دشمن کا گھیرے میں آئے لیکن دشمن کو چکمہ دے کر نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ اسی دوران آرپار جب موبائل فون متعارف ہوئے تو کبھی کبھار ہم فون پر بھی ایک دوسرے کی خیریت عافیت پوچھتےرہتے۔لیل و نہار یونہی گزرتے گئے۔میں سافٹ وئیر انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے میں مصروف تھا اور ابرار میدانِ کارزار میں اپنے مشن میں مصروف تھا۔گوریلا جنگ ایک تھکا دینے والی اعصاب شکن جنگ ہے۔اس جنگ کو لڑنے والے انسان کیلئے ضروری ہے کہ بیچ بیچ میں وہ سستا لے اور تازہ دم ہو جائےورنہ اسکی ذہنی اور جسمانی حالت بگڑنے لگتی ہے۔
ابرار بھی اب واپس بیس کیمپ آنے کی خواہش کر رہا تھا جسکا تذکرہ اس نے میرے ساتھ کیا۔ابھی اس معاملے میں وہ مشورہ ہی کر رہا تھا کہ تقدیرِ اِلٰہی نے اسے ایک شدید آزمائش میں ڈال کر اسکی زندگی کا سب سے بڑا امتحان لیا۔یکم فروری 2006 کو وہ اپنے ایک اور ساتھی کے ہمراہ ایک گھر میں قیام پذیر تھا اور بیمار تھا۔جس گھر میں وہ قیام پذیر تھے وہ اسکے دوسرے ساتھی کے پھوپھا کا گھر تھا اور اسکا پھوپھاپولیس میں تھا۔اس پولیس والے نے انکی مخبری کی۔انہوں نے گھر سے نکلنے کی کوشش کی لیکن ہتھیار ساتھ نہ ہونے کے سبب دونوں گرفتار ہوگئے۔دن بھر اور رات بھر ابرار کا شدید ٹارچر ہوا۔اسکے بدن کو لوہے کی گرم سلاخوں سے جلایا گیا اور اسکے جسم کی ہڈیوں کے جوڑ تک الگ کئے گئے۔اسے زبردستی شراب پلانے کی کوشش کی گئی۔لیکن پھر بھی وہ ثابت قدم رہا اوراس نے اپنا ہتھیار انکے حوالے نہ کیا،غالباً ابرار اور اسکا ساتھی ٹارچر کے دوران ہی شہید ہوگئے تھے لیکن 2 فروری رات کے آخری پہر انکا فرضی انکاؤنٹر کیا گیا۔ یوں اللہ تعالیٰ نے اسے اس شدید آزمائش میں سروخرو کیا اور شہادت کا خوبصورت تاج اس کے سر پہ پہنا دیا۔گھر والوں نے اسکا خون آلود زخموں سے چور جسدِ خاکی مقامی پولیس تھانے سے حاصل کیا۔لوگوں کے جمِ غفیر نے اسے فلک شگاف نعروں کے ساتھ رخصت کیا اور نمناک نگاہوں کے ساتھ مزارِ شہداء میں سپردِ خاک کیا۔جنازے کی ویڈیو قریباً ایک ماہ بعد جب مجھ تک پہنچی تو میری آنکھوں سے بےاختیار آنسوںرواں ہوگئے اور سارا ماضی میری آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔ابرار کا زخمی خون آلود چہرہ اسکی وفاء کی گواہی دے رہا تھا۔ بیس کیمپ میں سینکڑوں سرفروشوں نے بھی یہ ویڈیو دیکھی۔اللہ تعالیٰ شہید ابراراحمد کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔آمین

یہاں پر ان دواشخاص کاذکر نہ کروں تو ناانصافی ہوگی ۔ ان میں ایک اللہ کا نیک بندہ جسے میں فرشتہ صفت انسان سمجھتا ہوں جو محمد ارسلان کے نام سے معروف ہیں انہوں نے شہیدابرار بھائی کے بعد بیس کیمپ میں آخری ایام تک میرا ایک چھوٹے شفیق بھائی کی طرح ساتھ دیا اور یہ ساتھ انہوں نے دنوں یا مہینوں تک ہی نہیں بلکہ انہوں نے یہ ساتھ بغیر کسی ناغہ کے پورے پانچ برس تک نبھایا۔انہوں نے دلجوئی سے میری خدمت کرکے ایک اعلیٰ مثال قائم کی ۔ ۔ان پانچ برسوں کے دوران کبھی انہوں اف کی نہ ان کے ماتھے پر کبھی بل آیا۔ایسے کمال کے لوگ دنیا میں خال خال ہی ملتے ہیں ۔انہوں نے میرا ہر طرح کا خیال رکھا ،مجھے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے دوران کالج اوریونیورسٹی وہیل چیئر پر لے جانا اور واپس لانا جو میری زندگی کا سخت ترین حصہ رہا یہ کام انہوں نے بڑی مہارت اور مستعدی سے انجام دے دیا ۔ چاہے سردی ہو گرمی ہو ،طوفان ہو غرض ہر موسم میں میرااتنا خیال رکھا کہ ان کے مجھ ناچیز پر کئے گئے احسانات گننا مشکل ہیں ۔میرا خیال رکھتے رکھتے انہوں اپنی نیندیں تک اپنے ااوپر حرام کیں لیکن مجھے کوئی تکلیف نہیں پہنچے دی۔اللہ اس مرد مومن کوجزائے خیر عطاکرے اور اسے اپنی حفظ امان میں رکھے ۔دوسری شخصیت یٰسین چارلی ہیںجنہوں نے اپنے مفید مشوروں سے مجھے نوازا اور جن پر میں عمل کرکے میں نےاپنی زندگی کو ایک اچھے صحت مند انسان کی طرح گزارنا سیکھا۔مجھے وہ دن یاد ہیں جب ویل چیئر سے بیڈ پر شفٹ ہونے کے لئے دو بندے درکار ہوتے تھے لیکن یٰسین چارلی نے مجھے زوردے کر کہا جس دن آپ بیڈ پر خود چڑھنے کو کوشش کروگے اس دن آپ کی زندگی بدل جائے گی ۔میں نےپہلے ان سے کہا یہ ناممکن ہے لیکن ساتھ ساتھ کوشش بھی کرتارہا ایک دن میں اس میں کامیاب ہوگیا۔یہ یٰسین چارلی ہی ہیں جنہوں مجھے کمپیوٹر کو بطورسبجیکٹ پڑھنے کا بھی مشورہ دیا اور میرا داخلہ کرانے میں اہم رول اداکیا۔میں نےاپنی تعلیم جاری رکھی اور میری زندگی میں ایک نیا انقلاب برپاہوگیا۔ حزب المجاہدین کے کیمونکیشن شعبہ میں یٰسین صاحب نےایک کلیدی کردار ادا کیا جس کی تنظیم بھی معترف ہے ۔ میدانِ کارزار میںمجاہدین وائرلیس سیٹ پرانہیں مائیک چارلی کہہ کر پکارا کرتےتھے۔یوں چارلی نام انکے ساتھ ہمیشہ کیلئے جڑ گیا اور تنظیم میں ہر کوئی انہیں یٰسین چارلی ہی کہا کرتے ہیں۔موصوف 1990 میں تربیت کیلئے بیس کیمپ آئے تھے۔پھر وہ واپس میدانِ کارزار چلے گئے اور کیمونکیشن شعبہ میں نمایاں کردار ادا کیا۔وہ شمالی کشمیر کے کسی نامعلوم مقام سے وائرلیس سیٹ پر مجاہدین سے پیغامات وصول کرکے پھر ان پیغامات کو بیس کیمپ بھیجا کرتےتھے۔ایک خاص عرصہ تک وہ میدان کارزار میں جہادی زندگی گزارکرباالآخر تنظیم کے حکم پر 1995 میں خونی لکیر کو عبورکرکے آزاد کشمیر میں داخل ہوئے۔یہاں ایک سرحدی علاقے میں کسی اونچی برفیلی چوٹی پر ایک بنکر کو انہوں نے اپنا مسکن بنایا جہاں سے وہ میدانِ کارزار کے مجاہدین سے پیغامات وصول کرتے۔ ان کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھتا گیا۔ یٰسین صاحب ہر دوسرے تیسرے دن میرے پاس تشریف لاتے۔کبھی اپنی فیملی کو بھی ساتھ لاتے۔میں بھی ان کے گھر جایا کرتاتھا انہوں میری خدمت کرنے کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔یٰسین صاحب کے ساتھ گپ شپ اب میری معمول کی زندگی کا حصہ بن چکا تھا۔مظفرآباد کے بعد اسلام آباد اور پھر راولپنڈی میں میرے قیام کے آخری لمحات تک یٰسین صاحب نے ہمیشہ میری دلجوئی کی اور ہمیشہ مشکل وقت میں میرے کام آتے رہے۔میں ان تمام محسنوں کو اپنی خاص دعائوں میں یادرکھتا ہوں ۔اللہ تعالیٰ ان سب دوستوں کوجو جزائے خیر عطا فرمائے۔