میر عبد الرشید فرقانی
ڈاکٹر منان وانی شہیدؒ جدید کشمیر کی تحریک آزادی کا ایک ایسا روشن ستارہ تھے جنہوں نے اپنی زندگی کے مختصر مگر بامقصد سفر سے آنے والی نسلوں کے لیے حوصلے، ایثار اور استقامت کی ایک لازوال داستان رقم کی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان، قلم کے دھنی اور فکر و بصیرت سے مالامال اس شخصیت نے جب اپنی قوم کے زخموں کو قریب سے دیکھا تو سکون کی زندگی اور دنیاوی آسائشیں ترک کر کے جدوجہدآزادی کے کٹھن راستے کو اختیار کیا۔ ان کا یہ فیصلہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیر کی تحریک محض جذباتی وابستگی کا نام نہیں بلکہ شعوری، فکری اور نظریاتی جدوجہد ہے۔
شمالی کشمیر کے لولاب کپواڑہ جیسےغیرت مند علاقے میں آنکھ کھولنے والے ڈاکٹر منان وانی نے ابتدائی تعلیم مقامی اداروں میں حاصل کی اور بعد ازاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسے عظیم علمی مرکز سے اعلیٰ تعلیم مکمل کی۔ یہاں انہوں نے نہ صرف اپنی علمی صلاحیتوں کو جلا بخشی بلکہ فکری اور نظریاتی طور پر بھی اپنی قوم کے مسائل کو سمجھنے اور ان کے حل کی جستجو کی۔ نوجوانی کے اس دور میں وہ قلمی جدوجہد کے ذریعے دنیا کو کشمیر کے حالات سے آگاہ کرنے لگے۔ ان کے مضامین اور مقالات قومی و بین الاقوامی اخبارات و جرائد میں شائع ہوتے رہے جن میں بھارتی ریاستی جبر، انسانی حقوق کی پامالی اور کشمیری عوام کی آرزوں کو نہایت سنجیدہ اور مدلل انداز میں پیش کیا گیا۔

ڈاکٹر منان وانی شہیدؒ کی زندگی کا اہم موڑ وہ تھا جب انہوں نے قلم سے بندوق کی جانب سفر کیا۔ یہ کوئی جذباتی یا وقتی فیصلہ نہ تھا بلکہ برسوں کی فکری جدوجہد اور کشمیری عوام کی مسلسل قربانیوں نے انہیں اس نتیجے پر پہنچایا کہ قلم کی طاقت اگرچہ عظیم ہے مگر جب دشمن بندوق سے نسلوں کو مٹانے پر تلا ہو تو اس کے جواب میں بندوق اٹھانا ہی عین فطرت اور انصاف ہے۔ انہوں نے حزب المجاہدین میں شمولیت اختیار کر کے سید صلاح الدین کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا اور عملی محاذ پر اتر کر اپنی جان کو اپنی قوم کی آزادی کے لیے نذر کر دیا۔
ان کے اور شہید سید علی گیلانیؒ کے درمیان فکری اور قلبی تعلق بھی نمایاں تھا۔ گیلانی صاحبؒ کے نزدیک ڈاکٹر منان وانی ؒجیسے تعلیم یافتہ نوجوان تحریک کی ریڑھ کی ہڈی تھے۔ گیلانی صاحبؒ کی استقامت اور مزاحمتی فکر نے ڈاکٹر منان وانی کو راستہ دکھایا اور یہی فکر ان کے لیے عملی میدان میں رہنما بنی۔ اسی طرح سید صلاح الدین جیسے رہنما کی مسلح جدوجہد نے انہیں عسکری مزاحمت کی طرف مائل کردیا۔ یوں وہ ایک پل کی مانند تھے جو فکری اور عسکری جدوجہد کے درمیان ربط قائم کرتے رہے۔
اکتوبر 2018 میں بھارتی فوج کے ہاتھوں شہادت نے ڈاکٹر منان وانی کے کردار کو امر کر دیا۔ ان کی شہادت پر پوری وادی غمزدہ ہوئی تاہم نوجوان نسل کے دلوں میں یہ احساس گہرا ہوا کہ تعلیم یافتہ طبقہ جب اپنی قوم کی خاطر سب کچھ قربان کر سکتا ہے تو باقیوں پر بھی اس جدوجہد میں شریک ہونا لازم ہے۔ ڈاکٹر منان وانی شہیدؒ کی زندگی ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ حقیقی دانشور وہ نہیں جو کتابوں تک محدود ہو جائے بلکہ وہ ہے جو اپنے علم کو اپنی قوم کے دکھ درد کا مداوا کرنے کے لیے بروئے کار لائے۔ انہوں نے اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ فکری مزاحمت اور عملی جدوجہد دراصل ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں۔ آج بھی ان کی تحریریں اور ان کا کردار کشمیری نوجوانوں کو یہ پیغام دیتا ہے کہ آزادی کی جدوجہد میں تعلیم اور قربانی دونوں کا امتزاج ضروری ہے۔
ڈاکٹر منان وانی شہیدؒ کی حیات و شہادت ایک عہد کا استعارہ ہے۔ انہوں نے اپنے قلم اور عمل دونوں سے یہ ثابت کیا کہ کشمیر کی تحریک محض ایک وقتی ردِعمل نہیں بلکہ صدیوں کی غلامی کے خلاف ایک شعوری اور منظم جدوجہد ہے۔ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہونے کے باوجود انہوں نے دنیاوی آسائشوں کو پسِ پشت ڈال کر اپنی قوم کے درد کو اپنا درد بنایا اور اسی راہ میں جان نثار کر دی۔ ان کی زندگی کا ہر پہلو اس امر کی گواہی دیتا ہے کہ تحریک آزادی کشمیر محض ایک سیاسی نعرہ نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے جسے قربانیوں سے دوام ملتا ہے۔
ڈاکٹر منان وانی شہیدؒ کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ انہوں نے صرف بندوق کا راستہ اختیار نہیں کیا بلکہ بندوق سے پہلے قلم کے ذریعے فکری محاذ پر بھرپور جنگ لڑی۔ ان کے مضامین ایک تعلیم یافتہ ذہن کی گہرائی اور ذمہ داری کا آئینہ دار تھے، جہاں وہ نہ صرف بھارتی ریاستی پالیسیوں کو بے نقاب کرتے بلکہ کشمیری عوام کی امنگوں اور ان کے دکھوں کو عالمی سطح پر اجاگر کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریریں تحقیقی اور علمی حلقوں میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ان کی زندگی کا یہ پہلو کشمیری نوجوانوں کے لیے ایک عملی سبق ہے کہ علم اور تعلیم کو محض روزگار کے حصول تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ علم کو قوم کی تعمیر، مزاحمت اور آزادی کے خواب کی تکمیل میں شریک کیا جائے۔ آج جب دنیا کو یہ باور کرانے میں مشکلات پیش آتی ہیں کہ کشمیری عوام کی جدوجہد منصفانہ اور اصولی ہے، تو ڈاکٹر منان وانی جیسے تعلیم یافتہ افراد کی قربانیاں اس جدوجہد کو جواز فراہم کرتی ہیں اور عالمی رائے عامہ کو متوجہ کرتی ہیں۔



ڈاکٹر منان کا یہ بھی کمال تھا کہ وہ نہ صرف اپنی قوم کے حالات پر غور کرتے تھے بلکہ اسلامی تاریخ اور مزاحمتی تحریکوں کا مطالعہ بھی رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے فیصلے وقتی جوش کا نتیجہ نہیں بلکہ گہری فکری سوچ اور تاریخی پس منظر کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔کشمیر کی نئی نسل کے سامنے جب ڈاکٹر منان وانیؒ کی زندگی اور شہادت کا نمونہ آتا ہے تو وہ یہ سمجھنے پر مجبور ہوتی ہے کہ آزادی کے خواب کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے قربانی سے کوئی مفر نہیں۔ ان کی حیات اس حقیقت کا عملی نمونہ ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوان اگر اپنی قوم کے مستقبل کو سنوارنے کے لیے میدان میں اتر آئیں تو بڑی سے بڑی طاقت ان کو شکست نہیں دے سکتی۔ وہ علم اور عمل کے امتزاج کی ایسی زندہ مثال ہیں جو ہمیشہ تحریک کشمیر کے رہنما اصولوں میں شامل رہے گی۔
ان کی قربانی دراصل ایک پیغام ہے کہ اگرچہ دشمن نے وادی کشمیر کو خون میں نہلانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا، مگر اس قوم کی رگوں میں بہنے والاخون اور اس کے شہیدوں کی لاشیں دشمن کی تمام سازشوںپر پانی پھیرتی رہیں گی۔ ان کی حیات ایک ایسا درخشاں باب ہے جو تحریک آزادی کشمیر کو آئندہ صدیوں تک رہنمائی فراہم کرتا رہے گا۔ ان کی فکر اور قربانی نئی نسل کو یہ یقین دلاتی ہے کہ مزاحمت کی روایت محض ماضی کا سرمایہ نہیں بلکہ مستقبل کی ضمانت بھی ہے۔






