ماسٹرسید نذیر الدین

اعجاز نازکی

ضلع کپواڑہ کے عظیم فرزند، سید نذیر الدین کشمیری، ایک ایسی شخصیت تھے جنہوں نے اپنی زندگی کے شب و روز تحریک اسلامی اور تحریک آزادی کشمیر کے لیے وقف کر دیے۔ ان کی وفات نے نہ صرف ان کے خاندان اور رفقاء بلکہ پوری تحریک مزاحمت کے کارکنوں کو عظیم صدمے سے دوچار کر دیا۔ وہ ایک عظیم رہنما، ایک مخلص کارکن اور ایک دین دار انسان تھے جنہوں نے اپنی زندگی کو اللہ کے راستے میں قربان کر دیا۔ ان کی جدوجہد، قربانیاں اور خدمات کشمیری قوم کے لیے مشعل راہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
ماسٹر نذیر الدین کشمیری کا تعلق ضلع کپواڑہ کے ایک معروف اور دین دار خاندان سے تھا جو اپنی علمی، ادبی اور دینی روایات کے لیے مشہور تھا۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے علاقے سے حاصل کی اور گریجویشن تک تعلیمی مراحل طے کیے۔ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے درسگاہوں سے انہوں نے روحانی اور فکری تربیت حاصل کی، جس نے ان کے کردار کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بچپن سے لے کر شعور کی پختگی تک، وہ ہندوستانی سامراج کے ظلم و جبر کا نشانہ بنے، لیکن انہوں نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ ان کی زندگی کے ابتدائی ایام سے ہی ان کا عزم اور جذبہ واضح تھا کہ وہ اپنی قوم کی آزادی کے لیے ایک عظیم کردار ادا کریں گے۔
1980 کی دہائی میں جب تحریک آزادی کشمیر نے نئی سمت اختیار کی، ماسٹرسید نذیر الدین نے اس تحریک کو پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ تحریک اسلامی کے ابتدائی رہنماؤں میں سے ایک تھے اور انہوں نے اپنی زندگی کو اس عظیم مقصد کے لیے وقف کر دیا۔ انہوں نے اپنے علاقے کے نوجوانوں میں تحریکی شعور بیدار کرنے کی ذمہ داری سنبھالی اور اسے احسن طریقے سے نبھایا۔ وہ خود ایک تحریک کی حیثیت رکھتے تھے، جن کی آواز اور عمل نے ہزاروں دلوں کو متاثر کیا۔
1989 میں جب ضلع کپواڑہ ہندوستانی فوج کے ظلم و جبر کی زد میں آیا، تو ہر گلی اور کوچہ ظلم کی داستان بن گیا۔ اس دوران ماسٹر نذیر احمد نے اللہ ٹائیگرز تنظیم جوائن کی اور اسی پلیٹ فارم سے جدوجہد کا آغاز کیا۔بعد میں اللہ ٹائیگرس نامی تنظیم حزب المجاہدین میں ضم ہوگئی ۔ انہوں نے صبر و استقامت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور ہر مشکل حالات میں اپنے ایمان کو مضبوط رکھا۔ جیسے کہ کہا جاتا ہے کہ “اللہ کے شیروں کو آتی نہیں رُوباہی”، ماسٹرسید نذیر الدین کشمیری نے اس مقولے کو سچ ثابت کیا۔۔۔۔۔ جب حالات ناقابل برداشت ہو گئے تو وہ ہجرت پر مجبور ہوئے، لیکن اس ہجرت نے ان کے عزم کو مزید پختہ کیا۔

سید نذیر الدین بلند حوصلے، خیر خواہی اور ایثار کے جذبے سے سرشار تھے۔ وہ ہمیشہ دوسروں کے لیے بہتری کے خواہاں رہتے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی ہمت نہیں ہاری اور ہر مشکل حالات میں اپنے رفقاء کے ساتھ مل کر جدوجہد جاری رکھی۔ وہ کبھی سکولوں کے ذریعے نئی نسل کو تعلیم و تربیت دیتے، تو کبھی اکیڈمیوں کے ذریعے اپنے ساتھیوں کی مدد سے نئے مواقع تلاش کرتے۔ انہوں نے اپنے بچوں کے لیے حلال روزگار کمانے کا عہد کیا اور اسے ہر حال میں پورا کیا۔ان کی زندگی ایک ایسی کتاب ہے جو ہر کشمیری کے لیے مشعل راہ ہے۔ وہ نہ صرف ایک رہنما تھے بلکہ ایک ایسی شخصیت تھے جنہوں نے اپنی زندگی کے ہر لمحے کو تحریک کے لیے وقف کیا۔ ان کی جدوجہد نے نہ صرف ان کے علاقے بلکہ پوری کشمیری قوم کو متاثر کیا۔
بدقسمتی سے، کچھ عرصہ قبل یہ انکشاف ہوا کہ ماسٹر جی کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ اس بیماری نے ان کے پھیپھڑوں کو شدید متاثر کیا اور ان کے جسم کے اندرونی اعضاء کو ناکارہ کر دیا۔ ان کی تنظیم حزب المجاہدین جموں کشمیرنے علاج معالجے کیلئے تمام ممکنہ اقدامات کیے ، لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے۔ آخر کار، یہ عظیم سپوت اپنی جدوجہد اور قربانیوں کی داستان چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کی جدائی نے ان کے رفقاء، دوستوں اور تحریک کے کارکنوں کے دلوں کو رنجیدہ کر دیا۔ماسٹرسید نذیر الدین کشمیری کی زندگی ایک ایسی داستان ہے جو ہر کشمیری کے لیے عظیم مثال ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی کو تحریک آزادی کشمیر کے لیے وقف کر دیا اور ہر مشکل حالات میں اپنے ایمان، صبر اور استقامت سے دشمن کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ایک عظیم رہنما، ایک مخلص کارکن اور ایک دین دار انسان تھے جنہوں نے اپنی زندگی کو اللہ کے راستے میں قربان کر دیا۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کی قربانیوں کو قبول فرمائے۔ آمین۔