جار اللہ خان
سن لو! بے شک اللہ کے ولیوں پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ وہ جو ایمان لائے اور تقویٰ اختیار کرتے رہے، ان کے لیے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں خوشخبری ہے۔ اللہ کی باتیں بدلتی نہیں، یہی بڑی کامیابی ہے۔(سورۃ یونس، آیات 62-64) جریر نے ہشام بن عروہ سے، اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے تھے:اللہ تعالیٰ علم کو لوگوں سے چھین کر نہیں اٹھائے گا، بلکہ علماء کو اٹھا کر علم کو لے جائے گا۔ یہاں تک کہ جب وہ کسی عالم کو باقی نہ چھوڑے گا، تو لوگ جاہلوں کو اپنا رہنما بنا لیں گے۔ ان سے دینی سوالات کیے جائیں گے، تو وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے، اس طرح خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔(صحیح مسلم، کتاب العلم، حدیث 6796)
جیسے گرا ہو کوہِ گراں مجھ پر ٹوٹ کر
کوئی گیا ہے آج یوں دنیا سے روٹھ کر
تھا آبروئے بزم تو ہی، تیرے بعد اب،
ٹوٹے ہیں جام اور ہوئے میخوار دربدر
کیسے بیان کیفیتِ غم کروں ضیاؔ، لبریز ہے مرا الم و درد سے جگر


میرے مشفق والد، مولانا عبدالمنانؒ کی جدائی کے صدمے کو ابھی ایک سال ہی گزرا تھا کہ ان کے دیرینہ مرشد، ہمارے مربی، گلگت بلتستان کے گوہر نایاب اور عظیم علمی و روحانی شخصیت، الشیخ غلام النصیر المعروف بابا چلاسیؒ ہمیں سوگوار چھوڑ کر اپنے خالقِ حقیقی کے حضور مقامِ علیین میں جا پہنچے۔ انہوں نے پاکستان، افغانستان، ایران، ترکی اور وسط ایشیا کے ہزاروں عقیدت مندوں اور علمائے کرام کی رہنمائی کی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
بابا چلاسیؒ بیسویں صدی کے عظیم مجدد تھے۔ انہوں نے اپنی زبان، تحریر اور قلم کے ذریعے خلقِ خدا کو توحید باری تعالیٰ، وجود باری تعالیٰ، مقام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، بعث بعد الموت، اور احترام انسانیت کی حقیقت سے روشناس کرایا۔ انہوں نے حل طلب موضوعات پر نظم و نثر میں بے شمار کتب تصنیف کیں، جن میں معدن التوحید، انفاس نفیسہ، التقریر العنیق عند البیت العتیق، نجاۃ الاخلاف فی اتباع الاسلاف، کلیات چلاسی، گنجینہ معرفت، اور سفینۃ الامان فی امواج الطوفان شامل ہیں۔ ان کی آخری تصنیف نصر النصیر فی تیسیر التفسیر ہے، جو قرآن کریم کی سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرہ کی شرح ہے۔ ایک اصلاحی مجلس کے دوران انہوں نے فرمایا:اگر زندگی نے مہلت دی تو قرآن حکیم کی مکمل تفسیر لکھوں گا، اور اگر مہلت نہ ملی تو سورۃ البقرہ کی شرح سے کتاب اللہ کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
میرے والد محترم، مولانا عبدالمنانؒ، بابا چلاسیؒ کے اولین رفقاء میں تھے۔ ان کی پہلی ملاقات 1959ء میں ہوئی، اور گزشتہ برس اپنی وفات تک 65 برس تک وہ بابا چلاسیؒ سے مستقل منسلک رہے۔ 1960ء کی دہائی میں والد محترم اور ان کے رفقاء، خصوصاً والد کے ماموں زاد بھائی اور سابق ڈپٹی کمشنر محمد اسماعیل خانؒ نے بابا چلاسیؒ کو گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں کا دورہ کرایا اور ان کے اصلاحی بیانات کا اہتمام کیا۔ بابا چلاسیؒ کی نورانی و پرکشش شخصیت اور شیریں کلام سے عوام الناس نے گہرا اثر لیا۔ عقائد کی اصلاح ہوئی، ناحق قتل، شرک، بدعات، رسوم و رواج اور جاہلیت کے اطوار بدلے، اور اصلاح احوال کی لہر پیدا ہوئی۔1980ء کی دہائی میں بابا چلاسیؒ نے ایبٹ آباد میں مستقل سکونت اختیار کی اور اپنے گھر کو بیت العنکبوت (مکڑے کا گھر) سے موسوم کیا۔ تب سے وفات تک، حج اور عمرہ کے علاوہ، وہ مستقل گوشہ نشین رہے۔ لیکن ملک بھر اور دیار غیر سے حق کے متلاشی اور عقیدت مندوں کا سلسلہ ان کی زیارت کے لیے امڈتا رہا اور ان کی روحانی محفل میں شریک ہو کر تزکیہ نفس کی دولت سے اپنے ایمان و یقین کو معطر کرتا رہا۔ گوشہ نشینی کے حوالے سے بابا چلاسیؒ نے فرمایا:
بزرگی نیست ایں خلوت نشینی،
سیاہ رویم زہ خلقم رو بہ پوشم
۔یعنی ۔۔۔خلوت نشینی کوئی بزرگی کی علامت نہیں، میں سیاہ رو ہوں، خلق خدا سے چہرہ چھپاتا ہوں
انہوں نے پوری زندگی توحید باری تعالیٰ کا درس دیا۔ معرفت و عشق الٰہی سے مزین شینا، فارسی، عربی، اردو اور پشتو زبانوں میں درجنوں کتابیں نظم و نثر میں تحریر کیں۔ وجود باری تعالیٰ کے موضوع پر ان کی سرپرستی میں انگریزی زبان میں ایک کتاب ALLAH IS ALLAH تحریر کی گئی۔ انہوں نے ہزاروں افراد کی اصلاح کی، انہیں اپنے خالق سے جوڑا، علماء اور اہل علم شخصیات کی رہنمائی کی، اور پاکیزہ و بامقصد زندگی گزارنے کے بعد حیات جاودانی کی طرف روانہ ہوئے۔ رب کریم ان کی عظیم دینی خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے اور انہیں جنت الفردوس میں صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔بابا چلاسیؒ امت مسلمہ کی زبوں حالی پر بہت رنجیدہ تھے۔ وہ کشمیر، فلسطین اور دنیا بھر کے مظلوموں کے لیے فکرمند رہتے، ان کی آزادی کے لیے دعائیں کرتے، اور اسے رب کی ناراضگی کا سبب قرار دیتے تھے۔ وہ پاکستان اور عالم اسلام کی کامیابی کا راز قرآن و سنت کے نظام کے نفاذ میں دیکھتے تھے۔ وہ ہمیشہ اتحاد، عدل و انصاف اور یکجہتی کی تلقین کرتے اور فرقہ بندی، گروہ بندی اور فتنہ و فساد کے سخت ناقد تھے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے مرشد و مربی، استاد و سرپرست، ولی کامل الشیخ غلام النصیر المعروف بابا چلاسیؒ کی دینی، علمی و سماجی خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے اور انہیں جنت الفردوس میں صالحین کے ساتھ اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔
معروف عالم دین مولانا منظور مینگل صاحب سمیت بے شمار علمائے کرام نے بابا چلاسیؒ کی حیات، خدمات، اور علمی و روحانی مقام و مرتبہ پر مفصل بیان کیا۔ فی الحقیقت رب کریم نے بابا چلاسیؒ کو اس تعارف سے کہیں بڑا علمی و روحانی مرتبہ عطا کیا تھا۔ وہ اوائل عمری میں ہی تجلیات ربانی سے فیض یاب ہوئے۔ رب کریم کی خاص عنایت سے علوم دینیہ سے سرفراز ہوئے اور زندگی کی آخری گھڑی تک طالبینِ حق کے دلوں کو عشق الٰہی سے سیراب کیا۔ ان کی رحلت امت مسلمہ کے لیے عظیم سانحہ ہے۔ حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ آخری زمانے میں علمائے ربانیین اور عارفین کو اٹھایا جاتا ہے۔
میرے والد محترم مولانا عبدالمنانؒ نے، جو تیس سالہ مشاہدے میں بابا چلاسیؒ کی رفاقت کا حق ادا کرتے رہے، سینکڑوں علماء، دانشوروں اور مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کو بابا چلاسیؒ کا تعارف کرایا، ان کی زیارت کرائی، ان کا عارفانہ کلام سنایا، اور ان کی کتب تقسیم کیں۔ پیرانہ سالی اور علالت کے باوجود اپنی رحلت تک وہ اپنے مرشد کی محفل میں شریک رہے۔ حسن اتفاق دیکھیں کہ گزشتہ سال23 ستمبر، 18 ربیع الاول کو بابا چلاسیؒ نے میرے والد محترم کا جنازہ پڑھایا، اور ٹھیک ایک سال بعد 19 ستمبر، 25 ربیع الاول کو بابا چلاسیؒ اس دار فانی سے دارالبقاء کی طرف لوٹ گئے۔ مرشد اور رفیق خاص کی ملاقات، ان شاء اللہ، علیین میں عرش بریں پر رب کریم کی خاص عنایات کے زیر سایہ ہوئی ہوگی۔ اللہ جل جلالہ ہمیں بابا چلاسیؒ کے علمی ورثے سے استفادہ کرنے، ان کے پند و نصائح پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں تمام شیطانی فتنوں سے محفوظ رکھے۔
بابا چلاسیؒ کی اہلیہ محترمہ بی بی صاحبہ نے نصف صدی سے زائد عرصہ تک قرآن و سنت کی اشاعت کے مقدس فریضے میں اپنے خاوند معظم کا مثالی ساتھ دیا۔ انہوں نے بابا کے مہمانوں کی شاندار میزبانی کی۔ بابا کی رحلت پر جب میں اپنے ماموں محمد عباس خان اور کرنل محمد ابرار اسماعیل کے ساتھ تعزیت کے لیے گیا، تو بی بی صاحبہ میں مجھے بابا چلاسیؒ کی جھلک نظر آئی۔ انہوں نے ہمیں نصیحت کی:بابا صاحب نے اپنا فریضہ بحسن خوبی سرانجام دیا۔ ان کی دعوت اللہ سے لو لگانے اور اسی کا ہو جانے کی تھی۔ آپ ان کی کتابیں پڑھیں، توحید کو اپنائیں، تو آپ کا بھی بھلا ہوگا اور بابا کے درجات بھی بلند ہوں گے۔

بی بی صاحبہ نے تلقین کی کہ دنیا فانی ہے، آج بابا چلاسیؒ کی رحلت ہوئی، کل ہماری باری ہے۔ صدمے کے اس موقع پر ان کے حوصلے اور رہنمائی نے بہت حوصلہ دیا۔ رب کریم بی بی صاحبہ کو بابرکت زندگی عطا فرمائے، ان کے تمام بچوں، ان کے بیٹوں محترم ابوالوقت، ابو الاحسان، ابو الفیض، اور ابوالخیر صاحبان کو صبر جمیل اور بہترین خدمت پر اجر عظیم سے نوازے۔ آمین۔بابا چلاسیؒ کی کتاب نجاۃ الاخلاف فی اتباع الاسلاف کی ایک رباعی سے ان کے عشق حقیقی اور حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جھلک ملتی ہے۔ برکت کے لیے پیش کر رہا ہوں
خدائے پاک ما آن رحم داراست
کہ رحم او بود عالم نگنجد
برائے ما بہشتے آفرید است
کہ در دل اندر آنجا غم نگنجد
ہمارا رب وہ رحم رکھتا ہے کہ اس کا رحم سینکڑوں جہانوں میں نہیں سما سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے جنت پیدا کی ہے کہ اس میں کوئی دل مغموم نہ ہوگا۔
محمد بے شک از رب رحمتی ہست
کہ اندر اتباعش جنتی ہست
بشر را شکر حق امر محال است
محمد مصطفیٰ آن نعمتی ہست
محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لیے رحمت ہیں کہ ان کی اتباع میں ہمیں جنت ملتی ہے۔ انسان کے لیے اللہ کا شکر کرنا ناممکن ہے کہ اللہ نے ہمیں وجود محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم نعمت سے نوازا۔

آخر میں، بابا چلاسیؒ کے قریبی رفیق اور برصغیر کے نامور شاعر محمد بشیر خان فوق دہلویؒ کے دو اشعار ان کی توصیف میں پیش کرتا ہوں، اور اس دعا کے ساتھ اجازت مانگتا ہوں کہ آپ بابا چلاسیؒ، میرے والد گرامی قدر، اور تمام مرحومین کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کریں، اور ہم سب کی دینِ حق پر استقامت کے لیے رب العالمین سے التجا کریں:
قربان تیرے کوہ دبستان چلاسی
تو چشم حقیقت میں ہے فاران چلاسی
ہر سمت سے آتے ہیں یہاں علم کے جویا
لینے کے لیے دولت عرفان چلاسی






