ڈاکٹر مفکراحمد: ایک عہد ساز شخصیت

حافظ عبدالرحمن مفکر/خالد عمران

وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو
ترجمہ: (القرآن، سورہ الصف ، آیت9)

ہر عہد میں کچھ لوگ ایسے پیدا ہوتے ہیں جو اپنی ذات میں ایک انجمن ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی محض ذاتی کامیابیوں اور فتوحات کا نام نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنے وقت کی فکری و علمی روایت کو نئی سمت عطا کرتے ہیں۔ میرے والد جناب ڈاکٹر مفکراحمد مرحوم بھی ایسی ہی نابغۂ روزگار شخصیت کا نام ہے جنہوں نے اپنی زندگی علم، جدوجہد اور خدمتِ دین کے لیے وقف کر دی۔ڈاکٹر مفکراحمد نے میدانِ طب میں اپنی محنت، دیانت اور خدمتِ خلق سے ایک خاص مقام بنایا۔ مریضوں کا علاج صرف پیشے کے طور پر نہیں بلکہ عبادت سمجھ کر کرتے تھے۔ ان کے کلینک میں آنے والاہر مریض یہ محسوس کرتا کہ وہ ایک مہربان مسیحا کے پاس آیا ہے جس کے دل میں انسانیت کے درد کی شمع روشن ہے۔ وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ طبیب کا اصل منصب جسم کے ساتھ ساتھ دلوں کو بھی سکون دینا ہے۔ڈاکٹر مفکراحمد کی شخصیت کا دوسرا روشن پہلو ان کا جذبۂ جہاد اور خدمتِ دین تھا۔ وہ اپنی جوانی ہی سے اسلام کی سربلندی اور امتِ مسلمہ کی بیداری کے لیے کوشاں رہے۔ دین کے معاملے میں ان کا موقف ہمیشہ دوٹوک اور واضح رہا۔ وہ نہ مداہنت کے قائل تھے اور نہ ہی وقتی فائدے کے۔ اسلام ان کے لیے صرف ایک مذہب نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطۂ حیات تھا جس پر وہ نہ صرف خود عمل پیرا تھے بلکہ دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیتے تھے۔ادب اور تحقیق کے میدان میں بھی والد صاحب نے اپنے نقوش چھوڑے۔ ان کی تحریروں میں دردِ دل بھی ہے اور فکر بلند بھی۔ وہ قلم کو امانت سمجھتے تھے اور اپنے مضامین و مقالات میں ہمیشہ اسلامی افکار، معاشرتی اصلاح اور انسان دوستی کے پہلو اجاگر کرتے تھے۔ ان کے قارئین ہمیشہ یہ محسوس کرتے کہ یہ تحریریں کسی عام قلم کار کی نہیں بلکہ ایک ایسے شخص کی ہیں جو دل و دماغ کی گہرائیوں سے دین اور انسانیت کی بھلائی چاہتا ہے۔
میرے والد نے اپنی پوری زندگی انتہائی سادگی میں گزاری۔ وہ لباس و رہائش میں، کھانے پینے اور چلنے پھرنے میں، ہر جگہ ایک درویش صفت انسان دکھائی دیتے۔ ان کی زندگی میں تکلف، نمود و نمائش یا دنیاوی جاہ و جلال کا شائبہ تک نہ تھا۔ ان کا اصل سرمایہ علم، خدمت اور اخلاص تھا۔ وہ اپنی ذات کو پسِ پشت ڈال کر ہمیشہ دوسروں کے لیے جیتے رہے۔آج جب وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں، تو ان کی تمام ذمہ داریاں ہمارے کندھوں پر آن پڑی ہیں۔ میں اپنے آپ کو ایک امانت دار سمجھتا ہوں جسے ان کے خوابوں اور مشن کو آگے بڑھانا ہے۔ والد صاحب اپنی زندگی میں کئی علمی منصوبے اور کتابیں تیار کر چکے تھے جو ابھی زیر طباعت سے آراستہ ہونا باقی ہیں۔ یہ کام اب میرا فرض ہے کہ ان کو مکمل کروں، مگر مجھے معلوم ہے کہ میں اکیلا یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ اس لیے میں ان کے دوستوں اور رفقاء سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ میرے ساتھ کھڑے ہوں، تاکہ ہم سب مل کر ان کی فکری وراثت کو آگے بڑھا سکیں۔والد صاحب کی جدائی میرے لیے ذاتی طور پر ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے، مگر میں جانتا ہوں کہ ان کی اصل زندگی ان کے افکار، تحریروں اور خدمات میں زندہ ہے۔ وہ چراغ جو انہوں نے روشن کیا تھا، ہمیں اب بجھنے نہیں دینا۔میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند کرے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم ان کے مشن کو آگے بڑھا سکیں۔

ڈاکٹر مفکراحمدؒ۔۔۔مجاہد بھی اور طبیب بھی

خالد عمران خالد

زندگی کی راہوں پر بعض اوقات ہمیں ایسے لوگ ملتے ہیں جو نہ صرف اپنے پیشے میں کمال رکھتے ہیں بلکہ اپنے عقیدے اور مشن کی خاطر جان ہتھیلی پر رکھنے کو بھی تیار رہتے ہیں۔ ڈاکٹر مفکر احمد، جو ڈاکٹر مفکر الاسلام کے نام سے بھی پہچانے جاتے تھے، ایسی ہی نایاب شخصیت تھے۔ وہ ایک ماہر طبیب تھے جو مریضوں کی خدمت اور ان کی شفا کے لیے بے چین رہتے، مگر ان کی زندگی کا اصل مقصد اسلام کی سربلندی اور مظلوم مسلمانوں کی آزادی تھا۔ ان کی زندگی محبت، اخلاص، جدوجہد اور قربانی سے مزین ایک روشن داستان ہے۔ اسلام کے ساتھ ان کی والہانہ وابستگی ایسی تھی کہ وہ ہر محاذ پر متحرک نظر آتے تھے، چاہے وہ قلم کی جنگ ہو یا خدمتِ خلق کا میدان۔ آج جب وہ ہم میں موجود نہیں تو ان کی یادیں اور کارنامے ہمارے لیے چراغِ راہ ہیں۔
میری پہلی ملاقات 1995 میں جامعہ منصورہ لاہور میں ڈاکٹر مفکرالاسلام سے ہوئی۔ پہلی ہی نظر میں وہ ایک ایسے شخص معلوم ہوئے جنہیں طب کے شعبے میں گہری بصیرت حاصل ہے اور جو ساتھ ہی اسلامی تحریکات کے ساتھ والہانہ لگاؤ رکھتے ہیں۔ یہ ملاقات وقت گزرنے کے ساتھ ایک مضبوط رفاقت میں ڈھل گئی۔ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا سب سے بڑا کمال یہ تھا کہ وہ ہر ایک کو اپنا سا بنا لیتے۔ ان کی گفتگو دلائل اور منطق سے مزین ہوتی اور وہ اپنی بات کو نہایت مدلل انداز میں پیش کرتے تھے۔ اسی مشترکہ سوچ اور مقصد نے اس دوستی کو مزید پختہ کیا۔
1996 میں جب امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمدؒ نے کرپشن کے خلاف ملک گیر تحریک کا آغاز کیا، ڈاکٹر مفکرالاسلام اس میں پیش پیش رہے۔ وہ نہ صرف خود شریک ہوئے بلکہ اپنے دوستوں اور ساتھیوں کو بھی اس تحریک سے جوڑا۔ یہی کوششیں اس تحریک کو عوامی سطح پر مقبول بنانے میں مددگار ثابت ہوئیں۔ اس کے بعد جب بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی پاکستان آئے تو جماعت اسلامی نے ان کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اس موقع پر کئی کالم تحریر کیے جو اخبارات میں شائع ہوئے۔ ان کے قلم میں ایک ایسی حرارت اور قوت تھی جو قارئین کے دلوں کو جھنجوڑدیتی اور انہیں بیدار کرتی تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ سیاسی جدوجہد اسلام کی سربلندی کا ایک لازمی تقاضا ہے، اسی لیے ایسے ہر موقع پر وہ صفِ اول میں موجود رہتے۔ان کی شخصیت کا سب سے روشن پہلو مجاہدین سے بے پناہ محبت تھا۔ فلسطین کے مجاہدین کے وہ حقیقی ترجمان تھے اور ان کی جدوجہد کو دنیا تک پہنچانے کے لیے مسلسل سرگرم رہے۔ وہ کئی بار معسکر البدر گئے، مجاہدین سے ملاقات کی اور بعض کو اپنے ساتھ بھی لائے۔ کشمیر کے شہدا پر ان کے مضامین درد، جذبے اور اخلاص سے بھرپور ایک زندہ یادگار ہیں۔ افغانستان اور کشمیر کے مجاہدین پر ان کی تحریریں مختلف رسائل میں شائع ہوتی رہیں، جو ان کی جہادی فکر کا واضح ثبوت ہیں۔ مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر سے ان کے دل کی گہری وابستگی تھی۔ وہ فلسطین فورم سے بھی وابستہ رہے اور بیت المقدس کی آزادی کے لیے ان کی تحریریں اخبارات و رسائل کی زینت بنتی رہیں۔
واجپائی کے دورہ پاکستان کے موقع پر حزب المجاہدین پاکستان کے امیر ڈاکٹر کمال خان صاحب اور نائب امیر عثمان خان صاحب کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس نازک موقع پر جماعت کی قیادت ڈاکٹر مفکرالاسلام کے سپرد کی گئی۔ انہوں نے یہ بھاری ذمہ داری نہایت دانشمندی سے نبھائی۔ مختلف کیمپوں کے دورے کیے، مجاہدین کو اعتماد میں لیا، ان کا حوصلہ بلند رکھا اور رہنمائی فراہم کی۔ یہ دور ان کے قائدانہ اوصاف کا امتحان تھا اور وہ اس میں پوری طرح کامیاب رہے۔
2005 کا زلزلہ آزاد کشمیر کی تاریخ کا الم ناک باب تھا۔ اس موقع پر ڈاکٹر مفکرالاسلام نے خدمتِ انسانیت کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیا۔ وہ پیماالحاجری ہسپتال میں ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے اور زخمیوں کی خدمت کے لیے دن رات کوشاں رہے۔ اسی دوران انہوں نے مظفرآباد کو اپنا مستقل مسکن بنا لیا۔ گھڑی دوپٹہ میں کلینک قائم کیا اور وہیں رہائش اختیار کی۔ وہاں وہ نہ صرف لوگوں کا علاج کرتے بلکہ انہیں روحانی و اخلاقی سہارا بھی فراہم کرتے۔ ایک طبیب ہونے کے باوجود ان کا مجاہدانہ جذبہ کبھی ماند نہ پڑا۔
ڈاکٹر مفکرالاسلام ہر دل عزیز شخصیت تھے۔ چاہے عام لوگ ہوں یا مجاہدین، ہر کوئی ان کے اخلاص اور محبت کا قائل تھا۔ ان کا جسمانی ڈھانچہ بھاری بھرکم تھا، مگر گفتگو کا انداز نپا تلا، مدلل اور انتہائی متاثرکن۔ مجاہدین کی صفوں میں وہ بطور رہنما مانے جاتے تھے۔ ان کی عملی زندگی مجاہدین کے ساتھ ان کی لازوال وابستگی کی آئینہ دار تھی۔ وہ کشمیر میڈیا سنٹر سے بھی وابستہ رہے، اور وہاں مزاحمتی میڈیا کے محاذ پر بھی فعال کردار ادا کرتے رہے۔ ایک ڈاکٹر ہونے کے باوجود میڈیا اور مزاحمت دونوں میں ان کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
ان کا چھوٹا سا بیگ اکثر ان کے ہمراہ ہوتا، جس میں ان کی تحریریں اور تصانیف موجود ہوتیں۔ یہ مضامین مختلف رسائل میں شائع ہوتے رہتے، خصوصاً البدر، کشمیر الیوم، جہاد کشمیر، مصباح اور ہم قدم میں۔ کشمیر کے ساتھ ساتھ فلسطین سے بھی ان کے تعلق کی گہرائی عیاں تھی۔ بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کی آزادی ان کی زندگی کا خواب تھا، جس پر ان کے مضامین آج بھی ایک قیمتی اثاثہ ہیں۔
ڈاکٹر مفکراحمد کی زندگی ایک روشن باب ہے جو بظاہر بند ہوگیا، مگر اس کی روشنی اپنے نقوش ہمیشہ چھوڑتی رہے گی۔ وہ کشمیر اور فلسطین کی آزادی کا خواب دیکھتے دیکھتے مالک حقیقی کے حضور حاضر ہوگئے۔ مجاہدین اور اہل فکر ایک شاندار، درد مند اور مخلص انسان سے محروم ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے، ان کی قربانیوں کو قبول کرے اور آخرت میں اپنی شان کے مطابق ان پر اجر عظیم کی بارش فرمائے۔ آمین۔