میرے دوست ،میرے رہنماڈاکٹر مفکر احمد

اویس بلال

ڈاکٹر مفکرایک عظیم مجاہد، ادیب اور مفکر10 ستمبر 2025 کو ایک عظیم شخصیت، افغان جہاد کے غازی، تحریک آزادی کشمیر کے سچے عاشق، جماعت اسلامی کے معروف رہنما، ممتاز صحافی، ادیب، دانشور اور مصنف ڈاکٹر مفکراس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے۔ انہوں نے تقریباً 35 سے 40 سال تک صحافت کے میدان میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ وہ ایک ایسی ہستی تھے جنہوں نے اپنی صلاحیتوں اور ہنر کے ذریعے دنیاوی آسائشوں اور دولت کی چمک دمک کو ٹھکرا کر نظریے کی کٹھن راہ اختیار کی۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی تحریک اسلامی کے لیے وقف کر دی اور اپنی تحریروں سے لوگوں کو باخبر کرنے کا فریضہ احسن طریقے سے ادا کیا۔ڈاکٹر مفکرپیشے کے لحاظ سے میڈیکل آفیسر تھے، لیکن ان کی شخصیت صرف اس پیشے تک محدود نہ تھی۔ وہ ادیب، دانشور، مصنف، اور ایک مجاہد کمانڈر بھی تھے۔ Afghan جہاد میں انہوں نے حصہ لیا اور جب کشمیر کا جہاد شروع ہوا تو انہوں نے زخمی مجاہدین کا علاج و معالجہ کیا۔ انہوں نے سادگی کو اپنا شعار بنایا اور تحریک کے لیے اپنی زندگی کو وقف کر دیا۔ وہ ایک خوش مزاج اور ملنسار انسان تھے، جن کی صحبت میں ہر کوئی خود کو آرام دہ محسوس کرتا تھا۔ڈاکٹر مفکرکی تحریک آزادی کشمیر سے وابستگی نہ صرف جذباتی تھی بلکہ عملی طور پر بھی قابل ستائش تھی۔ جب بھی مقبوضہ جموں و کشمیر کے شہداء کا ذکر ہوتا، ان کی آنکھیں اشکبار ہو جاتی تھیں۔ ان کی یہ جذباتی وابستگی ان کے نظریے کی گہرائی اور ان کی تحریک سے محبت کی عکاس تھی۔ جب شہید ضیاء الرحمن نے انہیں بتایا کہ میں جمعیت کا کارکن رہا ہوں، تو انہوں نے ان کی بے حد عزت کی اور ہر ملاقات میں ان کا پیار اور احترام عیاں ہوتا تھا۔ میڈیا آفس
میں ہونے والی ملاقاتوں میں ان کی گرمجوشی اور محبت ہمیشہ یاد رہے گی۔ایک بار ڈاکٹر مفکرکے ساتھ محفل میں شہید غلام حسن عرف ابو بکر کا ذکر چھڑا۔ انہوں نے مجھے کہا کہ میں شہید ابو بکر کے بارے میں کچھ لکھوں، اور اگر کوئی کمی بیشی ہوئی تو وہ اسے درست کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی سربلندی کے لیے ایسے افراد کو چن لیتا ہے جو دین حق کی دعوت کو عام کرنے اور اس کی خاطر جہاد کرنے کے لیے اپنی زندگیاں قربان کر دیتے ہیں۔ شہید ابو بکر، جو کشتواڑ ڈوڈہ کے بٹالین کمانڈر تھے، انہی برگزیدہ افراد میں سے ایک تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں شہادت کی عظیم نعمت سے نوازا اور ہمیشہ کے لیے حیات جاوداں عطا کی۔ڈاکٹر مفکرنے کہا تھا کہ قوموں کی عزت اور سربلندی ان کے جوانوں کی قربانیوں سے وابستہ ہوتی ہے۔ جو قومیں اپنے جوانوں کی قربانیاں پیش نہیں کرتیں، وہ کبھی عزت سے نہیں جِی سکتیں۔ انہوں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ شہید ابو بکر کشتواڑی کی شہادت کو قبول فرمائے اور آخرت میں انہیں ہماری سفارش کا ذریعہ بنائے۔ڈاکٹر مفکرنے اپنی زندگی اور تحریروں سے ایک واضح پیغام دیا کہ نظریے کی خاطر قربانی دینا ہی اصل کامیابی ہے۔ ان کے بقول:
وہ لوگ جنہوں نے خون دے کر پھولوں کو رنگت بخشی ہے
دو چار سے دنیا واقف ہے، گمنام نہ جانے کتنے ہیں
چمن میں آئے گی فصل بہاراں، ہم نہیں ہوں گے
چراغ زندگی ہوگا فروزاں، ہم نہیں ہوں گے
اللہ تعالیٰ ڈاکٹر مفکرکی مغفرت فرمائے، ان کی خدمات کو قبول کرے، اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔