سرینگر سے غزہ تک لہو میں ڈوبی داستان غم، وادی اور ساحل کی چیخ ،آزادی کے خواب کا خون
برف پوش وادیٔ کشمیر اور غزہ کے ساحلوں کی جلتی ریت کا تقابلی منظر ، لہو میں ڈوبا ہوا ضمیر انسانی کا نوحہ
ظلم کی گونج، سرینگر کی گلیوں سے غزہ کے ملبے تک پھیل چکی مگر کیا دنیا بہری ہو چکی ہے؟
سید عمر اویس گردیزی
وہ سرزمینیں جن کے دل سے کبھی تہذیب کی خوشبو اٹھتی تھی، اب خون کی بخارات سے دھواں ہو کر اٹھتی ہیں؛ وہاں صبح کا سورج جب اُبھرتا ہے تو برف کی سفیدی نہیں، زخموں کی سرخی آتی ہے۔ دریا اپنی روانی میں نوحہ گھول چکے ہیں، پہاڑ اپنی چوٹیوں پر قبروں کے سائے سجا کر بیٹھے ہیں، اور ہوا ہر سانس کے ساتھ کسی ماں کی گمشدہ آواز کا نوحہ لےکر گزرتی ہے۔ وہاں کے لوگ قبر اور گھر کے درمیان جابجا رہ رہے ہیں، وہ لوگ جو کبھی نان و نمک کے ضامن تھے، اب کفن کے بانٹنے والے ہیں۔ بچوں کے ہونٹوں پر لوری کے بدلے خون کے دھبے ہیں، بوڑھوں کی زبانیں صمت کی صدا بن کر رہ گئی ہیں، اور عورتیں ایسی لوری گاتی ہیں کہ سننے والاصدیوں کا قصہ بھول جائے۔ ظلم نے ان خطوں میں نہ صرف جسموں کو کھودا ہے بلکہ زبانوں کو بھی چیر دیا؛ الفاظ جو کبھی محبت تھے، اب جرم کہلائے جاتے ہیں، دعائیں جرم ہیں، اور آنسو بغاوت کا ثبوت۔
وہ قوتیں جو انصاف کے نام کا حلیہ اوڑھ کر آئیں، وہاں کے دکھ سے تماشہ بنانے کے ماہر ہو گئیں، انہیں قانون اور قراردادیں زیب دیتی ہیں مگر ان کے ہاتھوں سے خون کی سیاہی نہیں چھوٹتی۔ یہاں ظلم کا محض ایک پہلو نہیں۔۔یہ ایک پوری تیزاب آلود روایت ہے جس نے نسل در نسل کی امیدوں کو جلا کر راکھ بنا دیا۔ وہ راکھ جس کے درمیان مٹی کے ٹکڑے بچے کھچے خوابوں کی مانند پڑے رہتے ہیں، کبھی ہنسنے والے، کبھی سوئے ہوئے، مگر اب ہمیشہ رونے والے۔ اور جب رات رک کر دھڑکتی ہے تو ستارے بھی منہ چھپا کر بیٹھ جاتے ہیں، جیسے خلاف انصاف کی فضا میں روشن رہنے سے عار محسوس کرتے ہوں۔ اب سوال یہ ہے کہ جب زمین خود اپنی چیخیں دبائے ہوئے ہے، جب آسمان نے کانوں پر پٹی باندھ رکھی ہے، تو انسانیت کی ضعیف سی آواز کون سنے گا؟ وہ سرزمینیں جہاں صبح کا سورج زخموں کی سرخی لے کر طلوع ہوتا ہے۔ جہاں دریا اپنی روانی میں نوحے بہاتے ہیں اور پہاڑ قبروں کے سائے اوڑھے بیٹھے ہیں۔ جہاں محبت کا لفظ جرم، دعا غداری، اور آنسو بغاوت کی علامت بنا دیا گیا۔ وہ خطے جہاں ظلم روایت، اور ناانصافی قانون کے نام پر مسلط کر دی گئی۔ جہاں خواب جلتے ہیں اور امیدیں راکھ ہو کر زمین پر بکھر جاتی ہیں۔ وہ دنیا جس نے اپنی آنکھوں پر پٹی، اور کانوں پر پٹاخے کی آوازوں کے آگے خاموشی کی مہر لگا دی۔ انسانیت آج سوال کر رہی ہے کہ کب تک یہ زمین خون پیے گی اور آسمان خاموش رہے گا؟
سرینگر کی یخ بستہ فضاؤں میں بہنے والاخون اور غزہ کے تپتے ہوئے ساحل پر ٹپکتی ہوئی آنکھوں کے آنسو، یہ محض دو جغرافیے نہیں، یہ انسانیت کی اجتماعی قبریں ہیں۔ کشمیر کی برف پوش چوٹیوں پر جب برف سرخی مائل ہو جاتی ہے تو وہ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ یہاں ہر موسم بہار کے بعد ایک نیا ماتم ہوتا ہے۔ اور غزہ کی ریت جب بارود کی بارش سے جل کر سیاہ ہو جاتی ہے تو گویا زمین خود اپنی کوکھ پر ماتم کرتی ہے۔ یہ دونوں خطے ایسے آئینے ہیں جن میں دنیا کی منافقت اور ضمیر کی مردنی کھل کر دکھائی دیتی ہے۔
ایک طرف وادیٔ کشمیر ہے، جو صدیوں سے تہذیبوں کا سنگم اور حسنِ فطرت کا استعارہ تھی، مگر آج وہاں بندوقوں کی گھن گرج اور خوف کی چاپ ہے۔ دوسری طرف غزہ ہے، جو کبھی زیتون اور گندم کی مہک سے بھرا ہوا ساحل تھا، مگر آج وہاں ملبے کے ڈھیر اور یتیموں کی چیخیں ہیں۔ یہ دونوں داستانیں الگ نہیں بلکہ ایک دوسرے کا عکس ہیں۔ ان کے زخم مشترک ہیں، ان کی چیخیں یکساں ہیں، ان کی ماؤں کے آنسو ایک ہی رنگ کے ہیں اور ان کی زمینیں ایک ہی ظالم کے پنجے تلے کراہ رہی ہیں۔اگر سرینگر اور غزہ کو ایک ہی کتاب کے دو باب کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ دونوں کی کہانیاں نوآبادیاتی سامراج کی چالوں سے جڑی ہیں۔ کشمیر کو برصغیر کی تقسیم کے وقت دھوکہ دیا گیا، اور فلسطین کو سامراجی طاقتوں نے وعدوں اور معاہدوں کی صلیب پر چڑھا دیا۔ دونوں خطوں کو ’’تنازع‘‘ کہا گیا تاکہ ظالم کا قبضہ قانونی دکھائی دے، اور مظلوم کی چیخیں شور سمجھی جائیں۔ کشمیر میں بھارتی فوج کا بوٹ، اور فلسطین میں اسرائیلی ٹینک، دونوں ایک ہی مقصد کے لیے حرکت میں ہیں۔۔۔زمین چھیننا، نسل بدلنا، تاریخ مٹانا۔ کشمیر میں آبادیاتی تناسب بگاڑنے کے لیے نئے قوانین، اور فلسطین میں یہودی بستیوں کی تعمیر، یہ وہ طریقے ہیں جو سامراجی ایجنڈے کی ایک ہی کاپی سے نقل کیے گئے ہیں۔ یہ مماثلتیں محض اتفاق نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کی وہ مشترکہ حکمتِ عملی ہیں جو کمزور اقوام کو غلام بنانے کے لیے رچی گئی ہیں۔ دونوں خطوں کے عوام کو زندہ درگور رکھنے کے لیے ظلم کے نئے نئے ہتھکنڈے ایجاد کیے گئے، تاکہ وہ نہ آزادی کی سانس لے سکیں، نہ اپنی شناخت باقی رکھ سکیں۔

کشمیر کی کہانی شروع ہوتی ہے 1947 کی تقسیم سے، جب ریاست کے عوام کی خواہشات کے برعکس بھارت نے فوجی قبضہ کیا۔ سلامتی کونسل کی قراردادیں محض کاغذ پر رہ گئیں، اور کشمیری عوام کی قربانیاں دیمک زدہ فائلوں میں دفن ہو گئیں۔ ہر الیکشن، ہر وعدہ، ہر معاہدہ ایک دھوکہ تھا۔ کشمیر کو جمہوریت کا حصہ بتایا گیا مگر وہاں بندوق کی نوک پر خاموشی مسلط کی گئی۔ فلسطین کی کہانی اور بھی پرانی ہے۔ بالفور ڈیکلریشن کے نام پر ایک ایسی سازش رچی گئی جس نے پوری ملتِ عرب کے قلب میں خنجر گھونپ دیا۔ وہاں یہودی ریاست کے قیام کا وعدہ کیا گیا اور مقامی فلسطینیوں کو اپنی ہی زمین پر اجنبی بنا دیا گیا۔ ناصرف ان کے گھروں پر قبضہ کیا گیا بلکہ ان کی نسلوں کو جلاوطن کر کے پناہ گزین کیمپوں کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ دونوں خطوں کی تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ سامراج کبھی بھی انصاف کا ضامن نہیں ہوتا۔ وہ محض اپنے مفادات کے لیے معاہدے کرتا ہے، اور جب وقت بدلتا ہے تو انہی معاہدوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتا ہے۔ کشمیر اور فلسطین دونوں اس سامراجی دھوکے کے زندہ ثبوت ہیں۔کشمیر کی وادی میں جب شام اترتی ہے تو سناٹا محض سکوت نہیں ہوتا بلکہ خوف کی زنجیر ہوتی ہے۔ وہاں ہر کھڑکی کے پیچھے دبکی ہوئی آنکھیں ہیں، جنہیں معلوم ہے کہ کب فوجی بوٹ دروازے توڑ دیں گے۔ بھارتی فوج کے قافلے جب گلیوں سے گزرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے موت کا جلوس ہے جو ہر دروازے پر اپنی دستک چھوڑ جاتا ہے۔ رات کی تاریکی میں گھروں پر چھاپے، نوجوانوں کو اٹھا کر غائب کرنا، اور پھر اگلے دن ان کی لاشیں کسی نالے کے کنارے ملنا، یہ ہے ’’جمہوریت‘‘ کا تحفہ جس پر بھارت فخر کرتا ہے۔ ادھر غزہ کی فضاؤں میں ڈرون کی گھن گرج اور ایف-16 طیاروں کی گونج وہ موسیقی ہے جو اسرائیلی بربریت کا ترانہ بنی ہوئی ہے۔ ایک ہی رات میں پورے کے پورے محلے ملبے کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔ سوتے ہوئے بچے ملبے کے نیچے سانس لیتے لیتے دم توڑ دیتے ہیں اور مائیں اپنی جھلستی ہوئی گود کو دیکھ کر پتھر ہو جاتی ہیں۔
اسرائیلی ٹینک جب غزہ کی زمین پر چلتے ہیں تو گویا وہ انسانیت کی پسلیاں روند رہے ہوتے ہیں۔ یہ دونوں مناظر الگ الگ نہیں بلکہ ایک ہی ظلم کی تصویریں ہیں، بس پردے مختلف ہیں۔ کشمیر میں قابض فوج ’’پیلٹ گن ‘‘سے آنکھیں چھینتی ہے اور فلسطینء میں میزائل پورے جسم کو مٹی میں دفن کر دیتے ہیں۔ مگر مقصد دونوں کا ایک ہے آزادی کی آواز کو کچلنا۔ کشمیر کا ایک بچہ جب اسکول جاتا ہے تو اس کی ماں کو یقین نہیں ہوتا کہ وہ واپس آئے گا یا نہیں۔ وہاں تعلیم گولیوں کے سائے میں دی جاتی ہے۔ کتاب اور بندوق ایک ہی کلاس روم میں موجود ہیں۔ وہ بچہ جس نے ’’الف‘‘ سیکھنا تھا، اس کے نصاب میں سب سے پہلے آنسو اور خون لکھ دیا جاتا ہے۔ غزہ میں تو مائیں اپنے بچوں کو بستہ تھما کر نہیں، کفن سی کر روانہ کرتی ہیں۔ وہاں اسکول کی عمارتیں بمباری میں گر جاتی ہیں اور بچوں کی چیخیں پتھروں کے نیچے دب جاتی ہیں۔ ایک ماں نے کہا تھا۔۔۔ہم اپنے بچوں کے جنازے اٹھا اٹھا کر تھک گئے ہیں، مگر دنیا کی آنکھ نہیں کھلتی۔۔۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ دونوں خطوں میں بچوں کی قبریں بڑوں کی قبروں سے زیادہ ہیں؟ نہیں، یہ سوچی سمجھی نسل کشی ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ کشمیری نوجوان کبھی بڑے نہ ہوں، اور اسرائیل چاہتا ہے کہ فلسطینی بچے کبھی جوان نہ ہوں۔ یہ منصوبہ دراصل کل کی مزاحمت کو آج دفن کرنے کا طریقہ ہے۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹس ہوں یا انسانی حقوق کی تنظیموں کے ریکارڈ، سب یہی کہتے ہیں کہ یہ نسل کشی ہے۔ مگر ان رپورٹس کا انجام محض کاغذ کے ڈھیر میں دفن ہو جانا ہے، جیسے کشمیری اور فلسطینی جنازے مٹی میں دفن ہو جاتے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو بھارت اور اسرائیل کی حکمت عملی ایک دوسرے سے نقل شدہ محسوس ہوتی ہے۔ بھارت نے انسدادِ دہشت گردی کے نام پر کشمیریوں کی آزادی کچلی، اور اسرائیل نے یہی بیانیہ فلسطینیوں پر مسلط کیا۔ دونوں نے اپنے ظلم کو دہشت گردی کے خلاف جنگ بنا کر پیش کیا تاکہ عالمی ضمیر کو خاموش کیا جا سکے۔ کشمیر میں محاصرے، غزہ میں ناکہ بندی؛ کشمیر میں فوجی چھاؤنیاں، غزہ میں یہودی بستیاں؛ کشمیر میں شناخت چھینی گئی، غزہ میں زمین چھینی گئی۔ یہ سب کچھ ایک ہی عالمی سامراجی اسکرپٹ کا حصہ ہے۔


اگر کوئی تاریخ کے صفحات پر خون سے لکھے گئے باب کھولے، تو اس کی آنکھوں کے سامنے دو چہرے ابھرتے ہیں؛ ایک وادیٔ کشمیر کا، جہاں ہر صبح کرفیو کے سایوں میں جاگتی ہے، اور دوسرا غزہ کا، جہاں راتیں بمباری کے شعلوں میں جل کر سیاہ راکھ بن جاتی ہیں۔ یہ دونوں خطے گویا ایک ہی داستان کے دو ابواب ہیں، ایک ہی قلم نے لکھے، ایک ہی لہو نے رنگے، اور ایک ہی بے حسی نے انہیں تنہا چھوڑ دیا۔ کشمیر کی وادی میں بہتے جھرنوں کی مدھر سرگم کب کی دب چکی ہے، اب وہاں گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور سائرن کی چیخیں سنائی دیتی ہیں۔ بچے جن کے ہونٹوں پر لوری کے بول ہونے چاہییں، وہ بندوقوں کے دہانے دیکھتے ہیں۔ فلسطین میں ماں اپنے بچے کو گود میں لیتی ہے اور جانتی ہے کہ اگلا لمحہ اس کے جگر کے ٹکڑے کو زمین کے سپرد کر سکتا ہے۔ یہاں آنسوؤں کی زبان ایک ہے، قبرستانوں کا منظر ایک ہے، اور بربادی کا حساب ایک ہی ہے۔ سامراجی طاقتوں کے دوہرے پیمانے دونوں خطوں پر یکساں بوجھ ڈالتے ہیں۔ کشمیر کی مظلومیت کو اندرونی معاملہ کہہ کر دبایا جاتا ہے، اور فلسطین کی بربادی کو دفاعی اقدام کا نام دیا جاتا ہے۔ کہیں آزادی کی صدا کو دہشت گردی کے لیبل سے دفن کیا جاتا ہے، کہیں مزاحمت کے سنگین کو انتہاپسندی کا طعنہ دے کر خاموش کرایا جاتا ہے۔ یہ وہی پیمانہ ہے جو انسانیت کے چہرے کو مسخ کرتا ہے، اور عالمی انصاف کی عدالت کو مذاق میں بدل دیتا ہے۔
اس تقابلی نوحے میں ایک اور قدر مشترک ہے، بے حسی۔ نہ مسلم دنیا اپنی نیند سے جاگتی ہے، نہ عالمی ضمیر اپنے کانوں سے بہرا پن اتارتا ہے۔ کشمیر کے شہیدوں کی لاشیں خاموش احتجاج کرتی ہیں، غزہ کے بچے ملبے تلے دب کر چیختے ہیں، مگر اقوام متحدہ کے ایوانوں میں صرف قراردادوں کے کاغذ اڑتے ہیں۔ اسلام آباد اور رام اللہ کے حکمران صرف بیانات پر اکتفا کرتے ہیں، اور ریاض، قاہرہ، دوحہ کے ایوانوں میں صرف رسمی مذمت کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ یہ خطے صرف زمین کے ٹکڑے نہیں، یہ انسانیت کے امتحان گاہیں ہیں۔ یہاں ہر روز تاریخ کا نیا صفحہ لکھا جاتا ہے اور انسانیت فیل ہوتی جاتی ہے۔ وادیٔ کشمیر اور غزہ، دونوں اس بات کے گواہ ہیں کہ ظالم جب بھی ظلم کرتا ہے، دنیا کی آنکھوں پر مفادات کی پٹی بندھی رہتی ہے۔ اور سوال یہ ہے کہ اگر سرینگر اور غزہ کی لاشیں انسانیت کو نہیں جگا سکتیں تو پھر کون سا منظر، کون سی چیخ، کون سا خون اس پتھر دل دنیا کو جھنجوڑ سکے گا؟
دنیا کی تاریخ میں کچھ زخم ایسے ہوتے ہیں جو وقت کے مرہم سے نہیں بھرتے، بلکہ ہر دن کے ساتھ رسنے لگتے ہیں۔ کشمیر اور فلسطین کے داغدار چہرے انہی زخموں کی مانند ہیں، ایسے زخم جو نہ صرف زمین کو سرخ کرتے ہیں بلکہ انسانیت کی پیشانی پر بدنما داغ ثبت کر دیتے ہیں۔ کشمیر میں برف پوش چوٹیوں کے دامن میں بہنے والا خون اب زمین کی رگوں میں جم چکا ہے، اور غزہ کے ساحل پر لہراتی لہریں بھی شہید بچوں کی لاشوں کو سہلا سہلا کر واپس کرتی ہیں۔ یہ دونوں خطے سوال بن کر کھڑے ہیں، ایسے سوال جسے نہ عالمی طاقتیں سننا چاہتی ہیں، نہ مسلم امہ جواب دینے کو تیار ہے۔ امام سید علی گیلانیؒ کی استقامت، شبیر احمد شاہ اور آسیہ اندارابی جیسے رہنماوں کے صبر، اور ہزاروں گمنام کشمیری شہیدوں کی قبریں، ایک طرف مشعل راہ ہیں اور دوسری طرف عریاں حقیقت کہ وادی کو خون سے نہلایا گیا مگر قیادتیں محض کرسیوں کی غلام بنیں۔ اسی طرح غزہ کے گلی کوچوں میں شہید شیخ احمد یاسین کی گونج، اسماعیل ہانیہ، ان کے خاندان کے لہو سے لکھی گئی وفاداری، اور ہزاروں فلسطینی بچوں کی قربانیاں چیخ چیخ کر دنیا کو بتاتی ہیں کہ یہ جنگ زمین کی نہیں، ضمیر کی جنگ ہے۔ عالمی سامراج کے ایوانوں میں انصاف کی ترازو ٹوٹ چکی ہے۔ کہیں اسرائیل کو کھلی چھوٹ ہے، کہیں بھارت کو اندھا اختیار۔۔۔کہیں مزاحمت کار دہشت گرد کہلائے جاتے ہیں، کہیں قابض کو محافظ مانا جاتا ہے۔ یہ وہی ترازو ہے جس پر اقوام متحدہ کے دفتر بند پڑے ہیں اور انسانیت کے کفن لٹکے ہیں۔ اگر کشمیر اور فلسطین کے لاشے اب بھی امت کو نہیں جگا سکے، تو پھر وہ کون سا منظر ہے جو جگا سکے گا؟ اگر شہیدوں کی قربانیاں قیادتوں کو راستہ نہیں دکھا سکتیں تو پھر تاریخ کا فیصلہ سخت ہو گا۔ اور اگر عالمی طاقتیں اب بھی خاموش رہیں، تو کل ان کے ایوان بھی انہی شعلوں میں جلیں گے جنہیں وہ آج نظر انداز کر رہی ہیں۔ آخر میں سوال یہ ہے کہ کیا سرینگر اور غزہ کے بچوں کا خون محض جغرافیے کا مسئلہ ہے یا یہ انسانیت کے ضمیر کا مقدمہ ہے؟ اگر یہ بھی انسانیت کو نہیں جگا سکتا، تو پھر انسانیت کا جنازہ کب اور کہاں پڑھا جائے گا؟ یہ ایک نوحہ ہے، ایک چیخ ہے، ایک سوال ہے کہ کیا انسانیت واقعی مر چکی ہے؟ کیا کشمیری اور فلسطینی لہو محض پانی ہے؟ کیا آنے والی نسلیں ہمیں بھی قصوروار نہ ٹھہرائیں گی؟






