کمانڈر سیف الرحمن باجوہ

عبد الحمید ڈار

وادی کشمیر کی خون آلود سرزمین پر ایک ایسا مجاہد گزرا جس کی رگ رگ میں ایمان کی حرارت، جہاد کا ولولہ اور شہادت کی تمنا موجزن تھی۔ یہ تھا سیف الرحمن باجوہ، جو خالد سیف اللہ کے نام سے جانا گیا۔ اس کی زندگی اللہ کی راہ میں قربانی، ایثار اور عظیم مقصد کے لیے جدوجہد کا ایک روشن باب ہے۔ اس کے والدین کی دعاؤں، اس کی بے لوث جدوجہد اور اس کی شہادت کی داستان ہر اس دل کو جھنجھوڑتی ہے جو حریت، ایمان اور دین کے لیے جینا جانتا ہے۔12 اگست 1972 کو صادق آباد میں پیدا ہونے والے سیف الرحمن باجوہ ایک معزز، دیندار اور باوقار خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد خلیل الرحمن نے اپنے بڑے بیٹے عبدالرحمن سے ملتے جلتے نام کی مناسبت سے ان کا نام سیف الرحمن رکھا۔ یہ خاندان اپنی اسلامی روایات، سخاوت، غریب پروری اور انسان دوستی کے لیے مشہور تھا۔ ان کے اسلاف میں ڈاکٹر سلیم شہید جیسے عظیم کردار شامل تھے، جن کی ایثار، بے لوث خدمت اور دین کی خاطر قربانی کی مثالیں علاقے میں زبان زدعام تھیں۔ سیف کو یہ صفات ورثے میں ملیں، جو اس کی شخصیت کا لازمی حصہ بن گئیں۔سیف الرحمن بچپن سے ہی ذہین، ہونہار اور غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل تھا۔ اس کا دمکتا چہرہ، کشادہ پیشانی، بڑی بڑی غزالی آنکھیں اور مسکراہٹ سے بھری معصوم شخصیت ہر دل کو موہ لیتی تھی۔ اسکول میں وہ نہ صرف تعلیمی میدان میں نمایاں رہا بلکہ مڈل اور میٹرک کے امتحانات میں اعلیٰ درجے حاصل کرکے وظائف کا مستحق بھی ٹھہرا۔ اس کی ذہانت اس کے اساتذہ اور ہم جماعتوں کے لیے باعث حیرت تھی۔ لاہور کے ایف سی کالج میں سائنس کے شعبے میں داخلہ لینے کے بعد اس کی ذہنی پرواز بلند سے بلند تر ہوتی چلی گئی۔ وہ سائنس کا طالب علم ہونے کے باوجود بین الکلیاتی مذاکروں، مباحثوں اور خطابت میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتا تھا۔ اس کی گفتگو میں اسلامی تاریخ، مجاہدین کی سوانح اور جہاد کے تئیں گہرا لگاؤ جھلکتا تھا۔ وہ اکثر کہا کرتا کہ اس کی روح شہادت کی تمنا سے بے قرار ہے۔سیف کی روح میں جہاد کا جذبہ بچپن سے ہی موجزن تھا۔ وہ علامہ اقبالؒ کے شاہین کی مانند پرواز کے خواب دیکھتا تھا۔ اس کے دل میں اقبالؒ کے یہ اشعار گونجتے تھے۔

تو شاہین ہے، پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسمان اور بھی ہیں
گزر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ و بیاباں میں
کہ شاہین کے لیے ذلت ہے کارِ آشیاں بندی

1989ء میں جب سوویت یونین نے افغانستان پر قبضہ کر رکھا تھا، سیف نے اپنے والدین سے جہاد میں شامل ہونے کی اجازت مانگی۔ اس کے والدین نے اس کے عزم اور جذبے کو دیکھتے ہوئے اجازت دے دی، حالانکہ وہ چاہتے تھے کہ وہ اپنی تعلیم مکمل کرے۔ سیفؒ نے افغانستان میں گوریلا جنگ کی سخت تربیت حاصل کی اور روس کے خلاف مجاہدین کے شانہ بشانہ لڑائی لڑی۔ وہ سرد وادیوں اور گرم میدانوں میں دشمن سے نبردآزما رہا۔ اس کی جرأت اور بہادری نے اسے مجاہدین میں ایک منفرد مقام دلایا۔ جب روس پسپا ہوا اور اس کا شیرازہ بکھر گیا تو سیف واپس وطن لوٹ آیا، لیکن اس کی روح ابھی بھی بے قرار تھی۔ قرآنی آیات اور جہاد کے احکامات اس کے دل و دماغ پر چھا گئے۔ وہ کہتا
شہادت ہے مطلوب و مقصودمومن
نہ مالِ غنیمت، نہ کشور کشائی
1991ء میں سیف نے اپنا رخ وادی کشمیر کی طرف موڑا۔ وہ آزاد کشمیر سے ہوتا ہوا مقبوضہ کشمیر پہنچا، جہاں بھارتی فوج کے مظالم عروج پر تھے۔ سات لاکھ سے زائد فوج نے کشمیر کی جنت نظیر کو جہنم زار بنا رکھا تھا۔ سیف نے حزب المجاہدین کے ایک ذمہ دار کمانڈر کی حیثیت سے مختلف محاذوں پر دشمن سے مقابلہ کیا۔ کبھی سرینگر کے نواح میں، کبھی جموں کی گھاٹیوں میں، کبھی اسلام آباد کے سبزہ زاروں میں اور کبھی کشمیر کی بلند و بالا چوٹیوں پر وہ دشمن کو للکارتا رہا۔ اس نے اپنے جوانوں کو گوریلا حملوں کی تربیت دی، دشمن کے منصوبوں کو ناکام بنایا اور بھارتی فوج کو شدید نقصان پہنچایا۔ اس کی حکمت عملی، بہادری اور تدبر نے اسے مجاہدین میں ایک عظیم رہنما بنا دیا۔ وہ شہید امام سید علی گیلانیؒ اور سید صلاح الدین کی ہدایات پر عمل کرتا اور اپنی حکمت عملی کو حالات کے مطابق ڈھالتا رہا۔
سیف کی زندگی سادگی، عاجزی اور جہاد کے لیے وقف تھی۔ وہ صرف دو جوڑے کپڑوں کے ساتھ جیتا، جو مجاہدانہ لباس کے مظہر تھے۔ وہ کہتا تھا کہ پرندے اور درویش اپنی گرفت میں سامان زیست نہیں رکھتے، اللہ خود ان کا انتظام کرتا ہے۔ اس نے قرآن مجید کے کئی سپارے حفظ کیے اور غزوات کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔’’تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ کی راہ میں ان کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو کہتے ہیں اے خدا ہمیں اس بستی سے نکال، جہاں کے لوگ بڑے ظالم و جفاکار ہیں‘‘۔(النساء )اس آیت اور اس جیسی آیات کو اپنی زندگی کا محور بنایا۔ جب اس کے والدین عمرے پر گئے تو اس کی واحد درخواست تھی کہ وہ اس کی شہادت کے لیے دعا کریں۔ انہوں نے بیت اللہ شریف میں دعا مانگی اے اللہ! سیف کو دشمن کی قید میں شہادت نہ دینا، بلکہ مقابلے میں سینہ سپر ہوکر شہادت کا مرتبہ عطا کرنا۔ سیف الرحمانؒ خود بھی کہتا تھا کہ وہ اپنے والدین کو عمرے پر لے جائے گا، لیکن اس کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔ اس کی گفتگو میں شہادت کی تمنا ہر وقت جھلکتی تھی۔ ایک بار جب اس سے پوچھا گیا کہ کیا وہ شہادت چاہتا ہے، تو اس نے مسکراتے ہوئے کہایہی میری دلی تمنا ہے۔اکتوبر 2003ء میں وادی کشمیر میں سیف اللہ ؒ ایک غدار کی مخبری پر بھارتی فوج کے نرغے میں آگیا۔ تنہا سفر کرتے ہوئے اس نے دشمن سے مقابلہ کیا اور جامِ شہادت نوش کیا۔ بی بی سی اور جیو ٹیلی ویژن نے اس کی شہادت کی خبر نشر کی۔ حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین نے تصدیق کی کہ سیف نے راہ حق میں اپنی جان نچھاور کر دی۔ اس کے والد خلیل الرحمن باجوہ نےاپنے بیٹے کی شہادت پر فخرکیا اور کہا کہ عمرے پر ہم نے ان کیلئے شہادت کی ہی دعا مانگی تھی۔فرمایا ان کے لیے یہ اعزاز ہے کہ ان کا بیٹا اللہ کے ساتھ کئے عہد کو نبھا گیا۔ سیف الرحمن کی شہادت کی داستان وادی کشمیر کے کوہساروں، سبزہ زاروں اور ندی نالوں میں گونجتی ہے۔ وہ ایک شاہین تھا جس نے آسمانوں کی پرواز کو اپنا مقدر بنایا۔ اس کی زندگی اور شہادت ہر اس شخص کے لیے مشعل راہ ہے جو ظلم کے خلاف سینہ سپر ہونے کا عزم رکھتا ہے۔
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
سیف الرحمن باجوہ ؒکی داستان ہر اس دل میں ولولہ بیدار کرتی ہے جو دین، حریت اور ایمان کے لیے جینا جانتا ہے۔ اس کی شہادت ایک عظیم ورثہ ہے جو آنے والی نسلوں کو راہ دکھاتی رہے گی۔ وہ ایک ایسی شمع تھا جس نے ظلم کی تاریکی میں روشنی بکھیری اور اپنی جان قربان کرکے دین کی سربلندی کا فریضہ ادا کیا۔ اس کی زندگی ہر اس جوان کے لیے ایک عظیم درس ہے جو اپنے ایمان اور دین کے لیے جہاد کی راہ پر گامزن ہونا چاہتا ہے۔ سیف الرحمان کی شہادت نہ صرف اس کے خاندان بلکہ پوری امت کے لیے ایک سرمایہ ہے جو ہمیشہ دلوں میں جہاد کا جذبہ بیدار کرتی رہے گی۔