محمد احسان مہر
حماس اور اسرائیل کے درمیان غزہ جنگ بندی معاہدہ پر عملدرآمد کے ساتھ ہی افغانستان نے پاکستا ن پر حملہ کر دیا۔ یہ حملہ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں قائم فوجی چک پوسٹوں پر چھاپہ مار کاروائیوں کی طرز پر کیا گیا ۔ خیبر پختونخوا سے لے کر بلوچستا ن کے سرحدی علاقوں تک پھیلے ہوئے اس حملے کا مقصد شاید بھارت کو خوش کرنا تھاکیونکہ اس حملے سے چند گھنٹے قبل افغان وزیر خارجہ نےبھارت میں بھارت میں بیٹھ کر بہت کم مفادات کے حصول کے لیے کشمیر کے حوالے سے بھی زمینی ، تاریخی ، اور مذہنی روایات کے منافی بیان دے کر کشمیریوں کے حق خودارادیت پر مبنی تحریک کو کمزور کرنے اور سفارتی سطح پر نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔اس بیان سے کشمیری عوام صدمے میں ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ سے افغان جہاد کی حمایت کرتے آئے ہیں حتیٰ کہ بہت سارے کشمیری مجاہدین نے افغان مجاہدین کے ساتھ شانہ بشانہ امریکی اور روسی افواج کے خلاف لڑ کر جام شہادت بھی نوش کیا ہے ۔ایسے میں ایسا بیان مظلوم کشمیری عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے ۔مشرقی وسطیٰ میں غزہ جنگ بندی کے تناظر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ہم 3ہزار سالہ پرانہ تنازع ختم کرنے کی طرف جا رہے ہیں۔ کیا امریکی صدر یہ سمجھتے ہیں کہ حماس کے سر پر بندوق تان کر اور اسرائیلیوں کے ہاتھ میں بندوق تھما کر فلسطین کا تنازع ختم کیا جا سکتا ہے؟اسرائیلی دو سال پہلے ہی سے غزہ کو کھنڈرات بنانے کے منصوبے پر عمل پیراتھاا ور اس کا دعویٰ تھا کہ اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی اور حماس کے مکمل خاتمے تک غزہ جنگ بندی نہیں ہو گی ۔ لیکن !! بالاآخر اسی حماس کی موجودگی اور غزہ کے کھنڈرات کی دھول میں اپنے یرغمالیوں کی تلاش میں ناکامی اسرائیل کا مقدر ٹھہری اور غزہ جنگ بندی معاہدہ کے ساتھ ہی حماس نے غزہ کی پٹی سے ہی 20 زندہ اسرائیلیوں یرغمالیوں کو عالمی میڈیا کے سامنے کھڑا کر دیا۔



2سالہ جنگ کا ہر فریق اپنی فتح کا جشن منانے کا حق رکھتا ہے۔ لیکن کیا کوئی نسل کشی کا مرتکب ملک عمارتوں کو کھنڈرات بنانے، بھوک اور پیاس سے بلکتے بچوں کی سسکیوں اور آہوں کے درمیان فتح کا دعویٰ کر سکتا ہے۔؟حقیقت یہ ہے کہ حماس نے دو سالہ اسرائیلی محاصرہ کے درمیان ثابت قدمی ، جرأت اور بہادری کا مظاہر ہ کیا ہے ۔ موجودہ دور میں اس کی مثال نہیںملتی ، اسرائیلی محاصرہ ، ہمسایہ ممالک کی لاتعلقی ، میڈیا کی جانب داری ، عالمی طاقتوں کی غنڈہ گردی اور ظلم وجبر کے آگے حماس کی قوت ہی فلسطین قوم کی عزم حوصلے کا پہاڑ بنی رہی ۔فلسطین قوم حماس کی قوت ، قیادت اور صلاحیت پر فخر کرنے پر حق بجانب ہے۔ اور امت مسلمہ دوا گوہ ہے کہ عالمی اسلام کے حکمرانوں میں بھی حماس کے کارکنوں ، جیسا حوصلہ اور جذبہ پیدا ہو۔ (آمین )عالمی برادری اس وقت غزہ امن معاہدہ کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف ہے اور بھارت اسرائیل گٹھ جور جنوبی ایشیاء کے تنازعات کی پرانی ڈائری نئے رنگ بھرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ستم ظریفی اور افسوسناک بات یہ ہے کہ محدود مفادات کی خاطر مسلہ کشمیر کی تاریخی حیثیت اور زمینی حقائق کو جھٹلانے کی باتیں ہو رہی ہیں ۔پاکستانی اور کشمیری قوم بھارت اسرائیل گٹھ جور کا ہر رنگ اور سازش بے نقاب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ بھارت نام نہاد علاقائی چودھراہٹ کے زعم میں اپنی ٹانگیں گنوا کر اب افغان بیساکھیوں کے سہارے چلنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے اور افغانستان جیسا ’’سمجھدار ‘‘ ملک ان شا اللہ اس حقیقت کو ضرور سمجھ لے گا کہ بھارتی حکمران کسی مسلمان اور وہ بھی ملا عمر کو رہبر و رہنما ماننے والے کے دوست نہیں ہوسکتے۔ امید ہے کہ موجودہ افغان سیٹ اپ ملا عمر ؒ کی طرح باطل قوتوں کی ریشہ دوانیوں کو سمجھ کر بھارتی منصوبوں کو ناکام بنانے میں ضرور اپنا کردار ادا کرے گا۔
جناب احسان مہر معروف صحافی اور کالم نگار ہیں،کشمیر الیوم کے لیے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں







