ہم زندہ قوم ہیں

اعجاز احمد نازکی

دنیا بخوبی آگاہ ہے کہ ایک صدی گزرنے کو ہے اور ریاست جموں و کشمیر کی ڈیڑھ کروڑ عوام کو سامراجی بھارت نے حقِ خود ارادیت سے محروم رکھا ہوا ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ قیام پاکستان سے قبل بھی ریاست کی مسلم اکثریت نے حق خود ارادیت کی جدوجہد 1931ء میں شروع کی تھی، جب 22 فرزندان توحید نے یکے بعد دیگرے اذان کی تکمیل میں کلمۃ اللہ کی سربلندی کے لیے گرم گرم لہو پیش کیا۔ جدوجہد آزادی کے موج مارتے جذبے کو سامراجی بھارت نے ٹھنڈا کرنے کے لیے بدمست قوت کو استعمال میں لا کر قتل عام شروع کر دیا۔ تحریک مزاحمت اسی ظلم و جبر کا ردعمل ہے کہ ریاست کی اکثریت کے حقوق سلب کر لئےگئے۔ اس سرزمین اولیاء کو وادی گلپوش کہیں یا شاعر کی زبان سے اسےفردوس بروئے زمین قرار دیں، ہمیں است، ہمیں است، ہمیں است کے الفاظ سے تعبیر کریں، ہمارے نزدیک اس وادی لالہ زار کو گلستان شہداء کہا جائے تو بات بنتی ہے۔ اس غمگین وادی جنت کی داستان دلخراش ہے۔ دنیا کے اس حسین خطے کو اللہ نے لازوال خوبصورتی اور فطرت کے عین نواز رکھا ہے اور ایک خاص مقام بھی عطا کیا ہے۔ جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا کے بیچ واقع ہونے کی وجہ سے جغرافیائی، سیاسی اور دفاعی اعتبار سے یہ دل آویز خطہ اپنی قدرت آپ رکھتا ہے۔ اس کا رقبہ 85,806 مربع میل ہے اور یہ ریاست ڈیڑھ کروڑ آبادی پر مشتمل ہے۔1947ء میں برطانوی بالادستی ختم ہوئی اور ایشیا میں دو بڑی قومیں، مسلمان اور ہندو، آپس میں متصادم ہو گئیں۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں پاکستان وجود میں آ گیا۔ اقوامِ متحدہ کے نام نہاد ادارے میں طے پایا تھا کہ فسادات پر قابو پاتے ہی ریاست جموں و کشمیر کے عوام کو حق رائے شماری دی جائے گی تاکہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں۔ لیکن 27 اکتوبر 1947ء کو بھارتی سامراج نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے ریاست جموں و کشمیر میں فوج داخل کر لی اور مملکت پر جبری قبضہ کر لیا۔تحریک آزادی کا احاطہ کرنے سے قبل ماضی میں جھانکنا ضروری ہے۔ ریاست جموں و کشمیر میں حریت فکر نے ایک المناک معاہدے کے بعد جنم لیا۔ 14 مارچ 1846ء کو ایسٹ انڈیا کمپنی کا معاہدہ راجہ گلاب سنگھ کے ساتھ طے پایا اور 7 لاکھ نانک شاہی روپے کے عوض ریاست کا بیشتر کوہستانی علاقہ راجہ گلاب سنگھ کو فروخت کر دیا گیا۔ اس سے قبل ایک ڈوگرہ جرنیل زوراور سنگھ لداخ اور بلتستان پر جبری قبضہ کر کے جموں کے وسیع حدود پر قدم جما چکا تھا۔

مہاراجہ نے جموں و کشمیر ملا کر دونوں علاقوں پر ظالمانہ اور آمرانہ حکومت کی بنیاد ڈال دی۔ جموں و کشمیر کی بیشتر آبادی زراعت پیشہ تھی، بنیادی حقوق کا تصور ناپید تھا اور مسلمانوں کو ملازمتوں میں نمائندگی برائے نام تھی۔ مہاراجہ کے ظلم و جبر نے انتہا کر دی۔ بیگار رواج عام ہو گیا اور مسلمانان کشمیر پر عبرتناک مظالم ڈھائے جانے لگے۔ اس دوران فہم و فراست رکھنے والے مٹھی بھر مجاہدین نے علم جہاد بلند کر کے ڈوگرہ حکمرانی کے خلاف مقابلے کی ٹھان لی۔ہندوستان کو برطانیہ کی غلامی سے آزادی ملے تھوڑا عرصہ گزرا تھا کہ پاکستان قائم ہو گیا۔ سامراجی بھارت کے سیاست کاروں کو ہندوستان کی آزادی سے زیادہ مملکت خداداد پاکستان کی وجود میں آمد کھٹکنے لگی۔ بھارتی سامراجی ٹولہ اس ٹوہ میں رہا کہ لَا إِلَٰہَ إِلَّا للہ کے نام پر قائم پاکستان کا شیرازہ کس طرح بکھیر دیا جائے، جو ناپاک عزائم ہندو سامراج کے تادم تحریر موجودہیں۔پاکستان کی طرح ریاست جموں و کشمیر کا فیصلہ بھی حق رائے شماری، دو قومی نظریے یا مذہبی بنیادوں پر ہونا تھا۔ لیکن اس کے برعکس بھارتی سامراج نے ریاستی دہشت گردی اور دراندازی کر کے 27 اکتوبر 1947ء کو مظلوم قومِ کشمیر کی آزادی پر شب خون مارا اور حق خود ارادیت کی قراردادوں پر عمل کرنے کے بجائے ریاست جموں و کشمیر کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر دیا۔ ہندو سامراج کی آٹھ لاکھ فوج اس وقت انسانیت اور عالمی امن کو تہہ و بالاکرنے پر تلی ہوئی ہے۔ اسی فوجی دہشت گردی کے نتیجے میں ایٹمی تصادم کے سائے بھی منڈلارہے ہیں۔بھارتی سامراج نے مسلم اکثریتی علاقوں پر مسلط کر دیا اور سازش کے تحت ہندوؤں کو محفوظ رکھا جبکہ مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا۔ حیدرآباد اور جوناگڑھ بھارتی سازش کے زد میں آ گئے۔ جموں اور بھارت کے مسلمانوں کو پاکستان پہنچانے کا دھوکا دیا گیا اور پاکستانی حدود میں ریل کے پہنچنے سے قبل مرد و زن کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ ہندوستان سے لے کر ریاست جموں و کشمیر تک لاکھوں لوگ شہید کر دئیےگئے۔مارچ 1947ء میں بھارتی سامراج نے چھیڑ چھاڑ شروع کر دی جب بھارتی پارلیمنٹ نے کشمیر کے نام نہاد الحاق بل منظور کر لیا۔ اس زبردستی الحاق کے نتیجے میں مسلم اکثریت مشتعل ہو گئی اور جگہ جگہ پاکستانی پرچم لہرا کر انہوں نے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ بھارتی سامراج کے حکمرانوں نے پوری قوت استعمال کر کے اس جنون کو ختم کرنے کا ہر حربہ آزمایا۔ لیکن الحمدللہ آزادی کا یہ جنون موجود رہا۔1971ء میں مشرقی پاکستان کو علٰیحدہ کر دیا گیا۔ نوے ہزار پاکستانی فوج زیر حراست آ گئی۔ آزاد کشمیر کی مجاہد رجمنٹ نے ٹوٹے پھوٹے ہتھیاروں سے سامراجی ہندو فوجیوں کی پیٹھ ٹھونک دی۔ الحمدللہ پاکستانی افواج اپنی سرحدوں کا مضبوط دفاع کر رہی ہیں اور سامراجی بھارت کی فوج کو پیٹھ پھیر کر منہ کی کھانی پڑ رہی ہے۔ لگتا ہے کہ پاکستان اور با ضمیر اسلامی مدافعتی قوتیں غزوۂ ہند کے آخری معرکے کی تیاری کر چکی ہیں۔ اس طرح ہندوستان کے خاتمے کا وقت قریب آ پہنچا ہے۔