دنیا متاع قلیل کے سوا کچھ نہیں ہے

یعنی ایسے باغ جو ان کی ابدی قیام گاہ ہوں گے۔ وہ خود بھی ان میں داخل ہوں گے اور ان کے آباؤ اجداد اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے جو جو صالح ہیں وہ بھی ان کے ساتھ وہاں جائیں گے۔ ملائکہ ہر طرف سے ان کے استقبال کے لیے آئیں گے اور ان سے کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہے، تم نے دنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا اس کی بدولت آج تم اس کے مستحق ہوئے ہو۔ پس کیا ہی خوب ہے یہ آخرت کا گھر !رہے وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ ڈالتے ہیں، جو ان رابطوں کو کاٹتے ہیں جنہیں اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے، اور جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، وہ لعنت کے مستحق ہیں اور ان کے لیے آخرت میں بہت برا ٹھکانہ ہے۔ اللہ جس کو چاہتا ہے رزق کی فراخی بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا رزق دیتا ہےیہ لوگ دنیوی زندگی میں مگن ہیں، حالانکہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں ایک متاع قلیل کے سوا کچھ بھی نہیں یہ لوگ جنہوں نے ( رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے سے) انکار کر دیا ہے کہتے ہیں’’ اس شخص پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اتری‘‘؟۔۔ کہو، اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اسی کو دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے۔ا یسے ہی لوگ ہیں وہ جنہوں نے( اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم) کی دعوت کو مان لیا ہے اور ان کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ خبردار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے۔ پھر جن لوگوں نے دعوت حق کو مانا اور نیک عمل کیے وہ خوش نصیب ہیں اور ان کے لیے اچھا انجام ہے۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اِسی شان سے ہم نے تم کو رسول بنا کر بھیجا ہے ، ایک ایسی قوم میں جس سے پہلے بہت سی قومیں گزر چکی ہیں، تا کہ تم ان لوگوں کو وہ پیغام سناؤ جو ہم نے تم پر نازل کیا ہے، اس حال میں کہ یہ اپنے نہایت مہربان خدا کے کافر بنے ہوئے ہیں۔ ان سے کہو کہ وہی میرا ربّ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور وہی میرا ملجا و ماویٰ ہے۔

سورہ الرعد آ یت نمبر23 تا30تفہیم القرآن سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

پاکیزہ مال ایک قابل قدر نعمت

حضرت عمرو ابن العاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ میرا ارادہ ہے کہ تم کو ایک لشکر کا امیر بنا کر بھیجوں پھر تم اللہ تعالی کے فضل سے صحیح سالم لوٹو (اور وہ مہم تمہارے ہاتھ پر فتح ہو) اور تم کو مال غنیمت حاصل ہو اور اللہ تعالی کی طرف سے تم کو مال و دولت کا اچھا عطیہ ملے۔ تو میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول میں نے اسلام مال و دولت کے لیے قبول نہیں کیا ہے بلکہ میں نے اسلام کی رغبت و محبت کی وجہ سے اس کو قبول کیا ہے اور اس لیے کہ آپ ﷺ کی معیت اور رفاقت مجھے نصیب ہو تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ اے عمرو! اللّہ کے صالح بندہ کے لئے جائز و پاکیزہ مال و دولت اچھی چیز (اور قابل قدر نعمت) ہے۔

(مسند احمد)

قیامت کے روزپانچ چیزوں کے بارے میں پوچھ گچھ

حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن (جب حساب کتاب کے لیے بارگاہ خداوندی میں پیشی ہوگی تو) آدمی کے پائوں اپنی جگہ سے سرک نہ سکیں گے جب تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں پوچھ گچھ نہ کرلی جائے۔ ایک اس کی پوری زندگی کے بارے میں کن کاموں اور مشغلوں میں اس کو ختم کیا؟ اور دوسرے خصوصیت سے اسکی جوانی کے بارے میں کہ کن مشغلوں میں بوسیدہ اور پرانا کیا۔ اور تیسرے اور چوتھے مال و دولت کے بارے میں کہ کہاں سے اور کن طریقوں اور راستوں سے اس کو حاصل کیا تھا اور کن کاموں اور کن راہوں میں اسکو صرف کیا۔ اور پانچواں سوال یہ ہو گا کہ جو کچھ معلوم تھا اس پر کتنا عمل کیا۔

(جامع ترمذی)