۔6 نومبر 1947کی کہانی۔۔۔ ابھی جاری ہے

6نومبر کشمیر کی تاریخ میں سب سے شدید انسانی سانحہ اور انسانی نسل کشی کا خوفناک واقعہ ہے۔ اس دن 1947ء میں جموں کے مختلف علاقوں میں لاکھوں مسلمانوں کو ایک منصوبہ بند سازش کے تحت قتل اور بے گھر کیا گیاـــ۔مورخین، سماجی کارکنان اور حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیمیں اس واقعہ کو باقاعدہ نسل کشی اور آبادیاتی صفائی کی مثال قرار دیتی ہیں۔ اس سانحے میں نہ صرف نوجوانوںبلکہ عورتوں، بچوں اور بزرگوں کو بھی بلا امتیاز نشانہ بنایا گیا، اجتماعی قتل، عصمت دری، اغوا اور لوٹ مار جیسی سنگین واقعات دیکھنے میں آئے۔اس قتل عام کے بعد خطے کی آبادی میں ڈرامائی اور دور رس تبدیلیاں آئیں، جس کے اثرات آج بھی جموں کشمیر کی سماجی، معاشی اور سیاسی ساخت پر نمایاں ہیں۔
تاریخ گواہ ہے اس قتل عام سے قبل 1941 کی مردم شماری کے مطابق جموں ضلع میں مسلمانوں کی آبادی کل آبادی کا تقریباً%37 (158,630 افراد)تھی۔1961تک یہ تناسب گھٹ کر صرف% 10 (51,690 افراد) رہ گیا۔ محتاط اندازوں کے مطابق اڑھائی لاکھ افراد قتل ہوئے اور پانچ لاکھ کے قریب لوگوں کو ہجرت پر مجبور کیا گیا۔جموں کے کم از کم 123 دیہات ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی مکمل طور پر ختم کی گئی۔ جموں صوبے میں پہلے مسلمان اکثریت میں تھے۔ قتل عام اور جبری نقل مکانی کے بعد، وہ کئی علاقوں میں اقلیت بن گئے۔نقل مکانی سے نہ صرف آبادی کا تناسب بدلابلکہ مسلم آبادی کے معاشی اثاثے بھی ضائع یا منتقل ہو گئے۔ زمینیں، جائیدادیں، روزگار کے ذرائع اور معاشرتی ڈھانچے یکسر تباہ ہو گئے یا غیر مسلم آبادی کو منتقل ہوگئے ۔اس آبادیاتی تبدیلی نے جموں کی سیاست کا توازن بھی بدل دیا، اور مسلم سیاسی نمائندگی محدود ہو گئی۔ اس واقعے نے نہ صرف ریاست جموں بلکہ پورے کشمیر تنازعہ کی سمت اور تاریخی بیانیے کو بھی متاثر کیا ۔
5 اگست 2019 بھارت نے آرٹیکل 370 اور 35A ختم کر کے جموں و کشمیر کی خصوصی نیم خودمختاری اور مقامی زمین ،پراپرٹی کے حقوق کی بنیاد ہی ہٹا دی۔ اس اقدام نے وہ قانونی رکاوٹیں ختم کر دیں جو طویل مدت تک غیرمقامی آبادی کی منتقلی اور زمین کے انتقال کو روکتی تھیں۔نئے ڈومیسائل قواعد (اپریل 2020) کے ذریعے بیرون علاقے رہنے والے، طویل عرصے تک مقیم افراد یا مخصوص ملازمتوں کے حامل افراد کو مقامی ڈومیسائل دینے کی گنجائش رکھی گئی ،اس سے غیرمقامی شہریوں کو سرکاری فوائد اور زمین و جائیداد خریدنے کے دروازے کھل گئے، یعنی آبادیاتی توازن بدلنے کی راہ متعین کی گئی۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین اور بین الاقوامی تنظیمیں واضح طور پر متنبہ کر چکی ہیں کہ ان قانونی وانتظامی تبدیلیوں میں ‘ڈیموگرافک اثرات’ (demographic implications) موجود ہیں اور اس طرح اکثریت اقلیت میں تبدیل ہونے کے واضح امکانات ہیں۔
اگر اس پوری صورتحال پر غور کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ 5اگست 2019ء اور نومبر1947 کے اقدامات کا ماخذ دراصل ایک ہی ہے اور مقصد ہےمسلم آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنا ۔6 نومبر 1947 کو یہ کام بندوق سے لیا گیا 5 اگست 2019 کو بندوقوں کے سائے میں نام نہادقوانین نے لے لی ہے۔مقصد وہی ہےکشمیر کی آبادیاتی اور تہذیبی و مذہبی شناخت کو مٹا دینا۔بقول معروف کشمیری صحافی و مصنفہ نعیمہ مہجور’’ان اقدامات کے نتیجے میں دس سال کے اندر ندر کشمیر ’’کاسمیر ‘‘ہوگا اور ایک کروڑ کی کشمیری آبادی ڈیڑھ ارب سے زائد بھارتی آبادی میں تحلیل ہوگی‘‘۔یعنی دوسرے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ سپین کی تاریخ دہرائی جارہی ہے اور ہمارے غیرت مند مسلم حکمرانوںکے لئے اس خوفناک صورتحال پر پر سوچنے کی بھی فرصت نہیں ۔اللہ رحم فرمائے ۔