ہم محدود وسائل کے باوجود دشمن کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں
نومسلم بھائیوں نے اس تحریک میں ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا
بہت سارے ایسے نوجوان اس وقت بھی ہیں جو دائرہ اسلام میں داخل ہونا چاہتے ہیں
قلیل تعداد اور کم وسائل کے باوجود دشمن مجاہدین کشمیر سے خوفزدہ ہے
یہ تحریک اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کشمیر بھارت کے جابرانہ تسلط سے آزاد نہیں ہو جاتا
ہمارا کام ہے جدوجہد کرنا ۔کامیابی و ناکامی اللہ کے ہاتھ میں ہے
یہ جدوجہد میری زندگی کا مقصد ہے۔ یہ صرف کشمیر کی آزادی کا معاملہ نہیں، بلکہ یہ حق و باطل کی لڑائی ہے
جہانگیر سروڑی ،حزب المجاہدین جموںکشمیرکے ایک معروف ڈویژنل کمانڈر ہیں، جو گزشتہ 34 برسوں سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے صوبہ جموں، ضلع کشتواڑ، ڈوڈہ ڈویژن میں تحریک آزادی کشمیر کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ وہ اپنی بے مثال جرأت، عسکری صلاحیتوں اور بھارتی فوج کو مسلسل چیلنج کرنے کی وجہ سے “پہاڑوں کا بیٹا” کہلاتے ہیں۔1992 سے مجاہدین کی صفوں میں شامل ہونے کے بعد انہوں نے متعدد کارنامے انجام دیئے، جو بھارتی خفیہ ایجنسیوں اور میڈیا میں بھی موضوعِ بحث رہے ہیں۔ ان کی جدوجہد نے دشمن کو ناکوں چنے چبوائے، اور وہ آج بھی تحریک آزادی کشمیر کے ایک اہم رہنما کی حیثیت سے سرگرم عمل ہیں۔ یہ انٹرویو ان کے ایک خفیہ ٹھکانے سے ہوا کے دوش پر کیا گیا، جہاں وہ دشمن کے گھیرے میں بھی ثابت قدم ہیں۔ (اویس بلال )

سوال۔۔۔جہانگیر بھائی، آپ اس وقت کہاں موجود ہیں، اور آپ کے گرد و نواح کے حالات کیسے ہیں؟
جواب: اویس بھائی، میں اس وقت ایک ایسی جگہ پر ہوں جہاں دشمن نے چاروں طرف سے گھیرا ڈال رکھا ہے۔ حالات انتہائی نازک ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کی نصرت شامل حال ہے۔ ہم محدود وسائل کے باوجود دشمن کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں۔ یہاں ہر لمحہ چیلنج سے بھرا ہوتا ہے، لیکن ہمارا عزم پختہ ہے۔
سوال۔۔۔ آپ اپنی طویل جدوجہد کے بارے میں بتائیں۔ آپ نے 1992 سے اب تک کیا تجربات حاصل کیے؟
جواب۔ 1992 میں جب میں نے مجاہدین کی صفوں میں شمولیت اختیار کی، تب سے لے کر آج تک یہ سفر ایمان، قربانی اور استقامت سے بھرپور رہا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہر محاذ پر دشمن کو شکست دینے کی توفیق دی۔ بھارتی فوج اور ان کی خفیہ ایجنسیوں نے ہمیں روکنے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن ہم نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ میرا ہر کارنامہ اللہ کی مدد اور ساتھیوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ دشمن آج بھی ہم سے خوفزدہ ہے، اور یہ ہماری کامیابی کی دلیل ہے۔
سوال۔۔۔ تحریکِ آزادی کشمیر میں نومسلم نوجوانوں کے کردار کے بارے میں کچھ بتائیں؟
جواب: نومسلم بھائیوں نے اس تحریک میں ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا۔ انہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنی زندگیاں آزادی کے لیے وقف کر دیں۔ مثال کے طور پر، کلدیپ سنگھ عرف اختر انصاری، راجندر سنگھ عرف رضوان الحق، اتم سنگھ عرف سیف اللہ خالد، کلدیپ کمار عرف کامران بھائی، اور سبھاش کمار عرف واصف علی جیسے جانبازوں نے بھارتی فوج کے خلاف شاندار کارنامے انجام دیے۔ حتیٰ کہ نیپال سے تعلق رکھنے والے ایک مجاہد طیب نے بھی اس راہ میں شہادت پائی۔ ان سب نے کلمہ طیبہ کی لاج رکھی اور تحریک کو مضبوط کیا۔آپ کی معلومات کے لیے بتاتا چلوں کہ دینِ اسلام میں داخل ہونے والے ان تمام نومسلم بھائیوں نے بھارت اور اس کی درندہ صفت بزدل فوج کو ایسا سبق سکھایا کہ وہ آخر دم تک یاد رکھیں گے۔ نومسلم بھائیوں نے ہمارا سر فخر سے بلند کر دیا۔ ان کی تحریک آزادی کشمیر کے لیے گراں قدر خدمات ہیں۔ بہت سارے ایسے نوجوان اس وقت بھی ہیں جو دائرہ اسلام میں داخل ہونا چاہتے ہیں کیونکہ انہیں اصل حقیقت سمجھ آ چکی ہے کہ حق پر کون ہے اور باطل کے راستے پر کون۔
سوال۔۔۔ بھارتی فوج اور حکومت اس تحریک کو دبانے کے لیے کیا حربے استعمال کر رہی ہے؟
جواب: اس تحریک کو ختم کرنے کے لیے کچھ ہندو انتہا پسند نوجوانوں کو بھارتی فوج نے ہتھیار بھی فراہم کئے ہیں۔ اودھم پور کے فوجی کیمپوں میں ان کو باضابطہ عسکری تربیت دی جاتی ہے۔ دوسرا شیطانی طریقہ اس تحریک آزادی کو ختم کرنے کے لیے بھارت نے ریاست جموں و کشمیر میں شراب خانے اور نشہ کے اڈے بھی کھولے ہوئے ہیں تاکہ یہاں کی نوجوان نسل تباہ و برباد ہو جائے۔ میں اس وقت چند نوجوانوں کے ساتھ دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کی کوشش کرنے میں مصروف ہوں۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے، میری یہ تھوڑی سی کاوش ہے کہ میں چند گولیوں سے دشمن کے خلاف برسرِ پیکار ہوں۔ قلیل تعداد اور کم وسائل کے باوجود دشمن مجاہدین کشمیر سے خوفزدہ ہے۔ اویس بھائی! ہم میں سے کتنے ایسے لوگ ہیں جو اس فکر میں مبتلا ہیں کہ تحریک آزادی کشمیر کب تک جاری و ساری رہے گی؟ اس کا واحد علاج یہ ہے کہ diamond cuts diamond، یعنی ہتھیار کے جواب میں ہتھیار ہے۔ لہٰذا آپ ہماری طرف سے یہ بات پہنچا دیں کہ کسی بھی طرح سے وادی کشمیر کے طول و عرض میں ہتھیار پہنچا دیں۔ 36 برسوں کی اس جدوجہد میں ایسے ایسے دردناک مناظر کی تصاویر میری آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہیں کہ انہیں مٹانے یا بھلانے کی کوشش کروں بھی تو بھول نہیں سکتا۔اسی دوران انہیں میرے مرحوم والد صاحب یاد آئے تو کافی جذباتی انداز میں ان کا ذکر کیا کہنے لگے کہ آپ کے والد صاحب ایک نیک، صابر اور خوش اخلاق انسان تھے۔ انہوں نے ہماری بہت خدمت کی اور ہمیشہ کہا کہ اپنے حصے کا دیا جلانا ہوگا، تب ہی ہم اپنی منزل تک پہنچیں گے۔ وہ ہر ملاقات میں مجھے اور دیگر مجاہدین کو حوصلہ دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت نصیب کرے۔ ان کی باتوں نے ہمیں ہمیشہ راہِ حق پر گامزن رہنے کی ترغیب دی۔
سوال۔۔۔ تحریکِ آزادی کشمیر کے مستقبل کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب: یہ تحریک اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کشمیر بھارت کے جابرانہ تسلط سے آزاد نہیں ہو جاتا۔ اس کا واحد حل ہتھیار کے مقابلے میں ہتھیار ہے۔ میں سب سے گزارش کرتا ہوں کہ وادی کشمیر کے طول و عرض میں ہتھیار پہنچائیں۔ ہمارے لوگ فکرمند ہیں کہ یہ جدوجہد کب تک چلے گی، لیکن ہمیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت شامل ہوگی۔ ہم قرآن و سنت سے جڑ کر ہی اس ظلم کے سیلاب کو روک سکتے ہیں۔ہمارا کام ہے جدوجہد کرنا ۔کامیابی و ناکامی اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔امام حسین ؓ نے حق ادا کیا ۔حق ادا کرنا ہی کا میابی ہے ۔بالاکوٹ میں سید احمد شہید ؒ اور سید اسماعیل ؒ سمیت سینکڑوں علما نے حق کیلئے جان دی۔ وہ کامیاب ہوئے ۔کامیابی کا معیار حق پر چلنا ہے اور الحمد للہ ہم اسی حق پر چلنے کی کوشش کررہے ہیں ۔تحریک آزادی کشمیر ان شا اللہ کامیابی سے ہمکنار ہوگی۔
سوال۔۔۔ آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
جواب: میں سب سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے لیے دعائیں کریں اور ہماری مدد کریں۔ حالات بہت خراب ہیں، لیکن ہم ہمت نہیں ہاریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو آزمایا اور انہیں بلند درجے عطا کیے۔ ہم بھی اسی راہ پر ہیں۔اویس بھائی! حضرت آدم علیہ السلام کو آزمایا گیا تو انہیں بابائے انسانیت بنا دیا گیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آزمایا گیا تو کلیم اللہ کا لقب دیا گیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آزمایا گیا تو خلیل اللہ بنا دیا گیا، اور ان کی فرمانبرداری اتنی پسند آئی کہ ان کے قدموں کے نشانات کو بھی مصلیٰ بنا دیا اور قیامت تک کے لیے ایک محبوب جگہ بنا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آزمائش ہر رشتے سے کی۔ والدین کو چھوڑ دیا، بیوی اور معصوم بچے کو صحرا بیابان میں چھوڑ دیا، بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم ملا تو چھری چلا دی۔ پھر کہا گیا کہ کعبہ کی تعمیر کریں، تو آپ نے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر اس کی تعمیر کی۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام پتھر ڈھوتے تھے اور ابراہیم علیہ السلام انہیں اوپر تلے رکھ کر دیوار بناتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کو ان کی اطاعت کرنے کی ادا اتنی پسند آئی کہ انہیں دنیا کے تمام الہامی مذاہب کے ماننے والوں کے لیے محترم بنا دیا۔ ہمارا ایمان ہے کہ حق کی فتح ہوگی۔ امت مسلمہ کو تسبیح کے دانوں کی طرح متحد ہونا ہوگا۔
سوال۔۔۔ آخر میں، آپ کے لیے یہ جدوجہد کیا معنی رکھتی ہے؟
جواب: یہ جدوجہد میری زندگی کا مقصد ہے۔ یہ صرف کشمیر کی آزادی کا سوال نہیں، بلکہ حق و باطل کی لڑائی ہے۔ ہم اپنی آنکھوں کے سامنے ظلم کے مناظر دیکھتے ہیں، ہمارا ایمان ہمیں آگے بڑھنے کی طاقت دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری یہ کاوش قبول فرمائے اور ہمیں اپنی منزل تک پہنچائے۔والسلام علیکم ورحمۃ اللہ






