شہید ڈویژنل کمانڈر جاوید قریشی

محمد اقبال

تحریکِ آزادی جموں و کشمیر لہو رنگ تحریک ہے ، اِس تحریک میں جہاں وطن عزیز کے جوانوں کا لہو شامل ہے۔ وہاں اِس میں بزرگوں ، بچوں اور خواتین کا خون بھی شامل ہے اور ہورہا ہے۔ یہ تحریکِ آزادی وادئ کشمیر سے شروع ہوکر صوبہ جموں کے طول و عرض میں پھیل گئی اور وہاں سے صف شکن مجاہدین سربکف ہوکر تحریکِ آزادی میں شامل ہوگئے ، جس کا مقصد وطن عزیز جموں و کشمیر کو بھارتی سامراج سے آزاد کرکے آغوش اسلام میںدینا ہے۔ ضلع ڈوڈہ نے اِس تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اِس ضلع سے نامور کمانڈر اور عظیم شخصیات نے راہِ خدا میں اپنی جانیں قربان کرکے صبحِ آزادی کا اعلان کیا۔ اِن عظمت و عزیمت کے پیکروں میں ہمیشہ یاد رہنے والاصفِ اوّل کا کمانڈر مظفر شیخ المعروف جاوید قریشی شہید ہیں۔ یہ ہر دلعزیز کمانڈر صرف گفتار کے غازی نہیں بلکہ کردار کے بھی غازی تھے۔ اُن کے کئی دوست اور رشتہ دار بھارتی غاصبوں کے خلاف لڑتے لڑتے شہید ہوگئے چچازاد بھائی ناصر شیخ ، دوست زبیر عرف خالد ، طاہر فریدی جو مشہور و معروف کمانڈر تھے۔جاوید قریشی کہا کرتے تھے میری کوشش یہ ہوتی ہے ہر کاروائی میں مجاہدین کے ساتھ رہوں۔بلالحاظ تنظیم تمام مجاہدین کے ساتھ محبت شفقت اور عقیدت سے پیش آتے تھے۔ وہ ہر اُس نوجوان سے محبت رکھتے اور اُس کی خدمت کرنا اپنا فرض اور سعادت سمجھتے تھے ، جو اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کیلئے مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کو بھارتی غاصبوں کے چنگل سے چھڑانے کیلئے میدانِ کارزار میں اُترا ہو۔ اُن کی کاروائیاں بے شمار ہیں۔ ایک کاروائی میں اُن کے حلق کو چھوتی ہوئی دشمن کی ایک گولی گزر گئی ، جس سے اُن کے حلق کی کئی رگیں کٹ گئیں۔ مجاہد ساتھیوں نے بڑی بے جگری سے بھارتی فوج کا مقابلہ کرکے اُن کو پسپا کردیا اور جاوید صاحب کو زخمی حالت میں اُٹھا کر ہائیڈ آؤٹ تک پہنچایا۔ علاج معالجے کے بعد اُن کا جان لیوا زخم اللہ ربُّ العزت کے فضل سے ٹھیک ہوگیا۔ البتہ جاوید قریشی کی گردن میں ذرا سا خم موجود رہا۔حزبُ المجاہدین کی طرف سے آپریشن ٹاپ ٹین کے تحت جارحانہ اور طوفانی کاروائیوں کا سلسلہ برابر جاری تھا۔ یہ آپریشن 1993ء کے دوران شہید ہونے والے دس نامور کمانڈروں کے نام پر شروع کیا گیا تھا۔ اِس کے بعد سے بھارتی فوج دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور ہوگئی تھی۔ حالانکہ سامانِ جنگ کے لحاظ سے بھارتی فوج مجاہدین کے مقابلے میں ہزاروں گنا زیادہ قوت رکھتی ہے۔ تعداد کے لحاظ سے بھی دونوں میں کوئی نسبت نہیں لیکن جب ایمان والوں اور شیطان کا مقابلہ ہو تو فتح ایمان والوں ہی کو نصیب ہوتی ہے۔ مقبوضہ جموں میں ڈوڈہ مرکز حریت اور شہر جہاد بنا ہوا تھا۔ یہاں بھی آپریشن ٹاپ ٹین کے ذریعے متعدد کاروائیاں کی گئیں۔ضلع ڈوڈہ سری نگر سے277 کلومیٹر جنوب میں دریائے چناب کے کنارے پر واقع ہے ، شروع سے ہی مجاہدین کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ ضلع ڈوڈہ چار تحصیلوں ڈوڈہ ، بھدرواہ ، ٹھاٹھری،اورگندوپرمشتمل ہے۔

شہید جاوید قریشی کی سربراہی میں مجاہدین نے قابض فوج کے خلاف کئی یادگار کاروائیاں کیں جن میں سب سے مشہور ایکشن اٹھارہ جولائی 1992ء کا تھا۔ اِس روز مجاہدین نے ڈوڈہ پر فتح کا جھنڈا لہرایا اور اُسے صبح سے شام تک اپنے قبضہ میں رکھا۔ پولیس سٹیشن ، عدالت ، ڈاک خانہ ، ہسپتال اور دوسری سرکاری تنصیبات پر سے بھارتی ترنگا اُتار کر پاکستانی پرچم لہرا دیئے گئے اور گورنمنٹ کے مواصلاتی نظام کے ذریعے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو براہِ راست مجاہدین کی کامیابی کے بارے میں بتایا تھا۔ بارڈر سیکورٹی فورس اور آرمی نے دوسرے دن ہیلی کاپٹروں اور بھاری اسلحہ کے ساتھ ڈوڈہ پر دھاوا بول دیا لیکن مجاہدین کو زیر کرنے میں ناکام رہے۔ وادیء کشمیر کے مشہور صحافی کہتے ہیں چھ نومبر 1997ء کا سورج دن بھر کے سفر کے بعد مغرب میں اپنے ٹھکانے پر لوٹ چکا تھا۔ ہر طرف سکوت طاری تھا۔ گھروں سے نکلنے پر پابندی تھی۔ مغرب اور عشاء کی نمازیں لوگ گھروں میں ہی ادا کر رہے تھے۔ لوگ گھروں میں دبکے بیٹھے تھے۔ کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ آنے والی رات کو ایک اور آفتاب غروب ہوگا۔ وہ آفتاب جس نے کئی برسوں سے میدانِ جہاد کو روشن کر رکھا تھا۔ ڈوڈہ سے اُبھرنے والایہ آفتاب تحریکِ آزادی کے اُفق پر کئی سال تک جگمگاتا رہا۔ عظمت اور رفعت کا حال یہ کہ اُن کے قصے اور کہانیاں بچوں کو سنائی جاتی۔ آٹھ سال کے دوران وہ ہر لمحہ بھارتی کرگسوں کی تلاش اور تعاقب میں رہا۔ وہ جموں کا ٹیپو سلطان تھا جس کی بہادری اور حمیت کی داستانیں لوگ فخر سے بیان کرتے ہیں۔29 اکتوبر کو بھارتی فوج نے گھٹ ڈوڈہ کا محاصرہ کیا۔ لوگوں کو گھروں سے نکالا، ایک ایک سے پوچھا جاتا۔ جاوید قریشی اور شمشیر خان کہاں ہیں؟ ہمیں نہیں معلوم کا جواب سن کر گاندھی کے پرستاروں کے سیاہ چہرے غصے سے لال ہو جاتے۔ معصوم اور بے گناہ عوام کو مار مار کر اَدھ موا کردیتے۔ نا کام و نامرا دلوٹ کر اگلے روز سیل ، بنڈاس ، بھیلی ، چھترن ، دشنان اور اُگاد کے علاقوں میں جاوید قریشی کی تلاش شروع کی گئی۔ مکانات تہس نہس کئے گئے اور قیمتی اشیاء لوٹی جانے لگیں لیکن وہ گوہر نایاب جس کی باز یابی کے لئے فوجی یہ پاپڑ بیل رہے تھے اُن کے ہاتھ نہ آیا۔۔ بار ہا فوجیوں کو افسروں سے ڈانٹ پڑی لیکن جاوید قریشی زاغوں کی پہنچ سے دور اپنے نشیمن سے اُن کی بے بسی دیکھ رہا تھا دوستوں نے مشورہ دیا کہ چند دن تک کسی دوسرے علاقے میں چلے جائیں لیکن اُنہوں نے خطرات کی دُنیا چھوڑنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اُن کی جسمانی اور مالی قوت ضائع ہو رہی ہے۔سٹی ڈوڈہ کا وہ گھر جس میں حریت کا یہ آفتاب نمودار ہوا۔ سارے ضلع میں مرکزی حیثیت رکھتا تھا۔ آپ کے والد محترم ماسٹر غلام حسن جماعت اسلامی کے امیر ضلع تھے۔ رشد و ہدایت کی روشنی پورے ضلع میں اُسی گھر سے پھیلی۔ اسلام کی انقلابی فکر اور آزادی کی لگن آپ کو وراثت میں ملی۔ مفکرِاسلام سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا لٹریچر جو آپ کے دولت خانے میں وافر تھا۔ صلاحیتوں کو جلا بخشنے میں مدد گار ثابت ہوا۔والدین نے اِس ظفر مند اور ذہین بچے کا نام مظفر احمد رکھا۔ حالات نے کروٹ لی۔کشمیری نوجوان خون سے آزادی کی تاریخ لکھنے چل پڑے مظفر احمد بھی پیش پیش تھے۔ 17 اکتوبر 1989ء کو آپ تربیت کیلئے بیس کیمپ پہنچے ، جاوید قریشی آپ کا نام رکھا گیا۔ چہرے پر داڑھی کی کلیاں پھوٹ رہی تھیں۔ پوری صلاحیتیں صرف کرکے تربیت حاصل کی۔ واپس ڈوڈہ پہنچنے پر آپ کو کمپنی کمانڈر بنایاگیا۔ ڈویژنل کمانڈر جموں سیف اللہ خالد شہید آپ کی صلاحیتوں سے آگاہ تھے۔ مختلف کام اُن سے لئے گئے۔ ایریا کمانڈر ، تحصیل کمانڈر اور ضلع کمانڈر کی حیثیت سے جاوید قریشی نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔18جولائی 1992ء حزبُ المجاہدین کے شاہینوں نے ڈوڈہ شہر پر فتح کے جھنڈے گاڑے۔ صبح سے شام تک ڈوڈہ مجاہدین کے کنٹرول میں رہا پولیس اسٹیشن ، سی آر پی ایف کا کیمپ ، تار گھر اور دیگر فوجی کیمپ مجاہدین کی مکمل دسترس میں تھے۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں کئی دن تک اُس کارروائی کی گونج سنائی دیتی رہی۔ اسلحے اور گولہ بارود کا بڑا ذخیرہ حزبُ المجاہدین کو مالِ غنیمت میں ملا۔ جاوید قریشی اس کامیابی کے سرخیل تھے۔ جاوید قریشی کی عسکری کارروائیوں کی طویل داستان ہے۔ آ پ ہی کی سربراہی میں ٹھاٹھری کے پولیس تھانے پر مجاہدین نے یلغار کی تھی ، تھانے کے اندر پہنچنے تک پولیس کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔ گیٹ پر موجود گارڈز کو نہایت خاموشی سے ہلاک کیا گیا۔ سری نگر ریڈیو نے اس کارروائی کا اعتراف کیا تھا۔ حریت پسندوں نے پولیس تھانے سے بارہ تھری ناٹ تھری رائفلیں ، آٹھ سو گولیاں ایک ایس ایل آر اور ایک وائر لیس سیٹ حاصل کیا ، آپ ڈوڈہ کے ضلعی کمانڈر تھے کہ فوج کے محاصرے میں آگئے۔ کریک ڈاؤن سخت تھا بچنے کی کوئی اُمید نہ تھی۔ یہ صورت حال دیکھ کر اُن کی ماں بیٹے سے ملاقات کرنے کیلئے آئیں۔ جاوید قریشی ایک مکان میں تھے۔ ماں نے اپنے مجاہد بیٹے سے مخاطب ہو کر کہا :”بیٹا تم قوم کی امانت ہو۔ میں تمہیں تاکید کرنے آئی ہوں کہ امتحان کی اِس گھڑی میں اللہ کی رضا کو سامنے رکھنا۔ ہماری فکر نہیں کرنا۔ ہم اللہ کے فیصلے پر راضی ہیں۔ اگر تمہاری جان جاتی ہے تو جائے کیونکہ شہادت ہی اصل کامیابی ہے ، لیکن تمہارے ہاتھ میں جو گن ہے اور تمہارے سینے میں جو راز ہیں۔ قوم کی امانتیں دشمن کے ہاتھ نہیں لگنی چاہئیں۔ لڑو اور خوب لڑو تاکہ دشمن کو معلوم ہو جائے یہ شیر دل ماؤں کے شیر دل بیٹے ہیں“ اس مردِ حر نے واقعی ماں کے دودھ کی لاج رکھی اور بے جگری سے مقابلہ کیا اور محاصرہ توڑ کر نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔کمانڈر جاوید قریشی اور بھارتی فوج کا کئی مرتبہ آمنا سامنا ہوا لیکن فوج کو نقصان پہنچا کر بحفاظت نکل جانے میں کامیاب ہو جاتے۔ میدان اور مجاہدین سے دُور رہنا اُن کو گوارا نہیں تھا وہ کہتے کہ میں تلواروں کے سائے میں جنّت ڈھونے نکلا ہوں ، جو صرف میدان میں حاصل ہوسکتی ہے۔ عمر رسیدہ کمانڈر سیف اللہ خالد کی شہادت پر سب متفکر تھے کہ اب جموں میں تحریک کا کیا بنے گا۔ یہ جاوید قریشی تھے جنہوں نے تحریک کو سنبھالا ہی نہیں بلکہ اُس میں وسعت بھی پیدا کر دی۔ ڈوڈہ کے جنگلوں سے لے کر راجوری کے بلند و بالا پہاڑ وں تک۔۔۔بستیوں سے ویرانوں تک ، اُدھم پور سے ہماچل پردیش تک غرض صوبہ جموں کے چپے چپے پر جاوید قریشی اپنے مجاہدین کے ہمراہ بھارتی فوج سے برسر پیکار رہے۔1996ء ڈویژنل کمانڈر کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد آپ نے پورے صوبے میں مجاہدین کو متحرک کیا۔خاص کر پونچھ اور راجوری جو مجاہدین کے مضبوط مسکن تھے اور بھارتی اخبارات نے جن کے بارے میں لکھا تھا کہ یہ آزاد کرا لئے گئے ہیں۔ اِس کا کریڈٹ بلاشبہ جاوید قریشی کو جاتا تھا۔ پانچ اور چھ نومبر 1997ء کی درمیانی رات کو کوٹی ڈوڈہ میں آپ اپنے ساتھی موسیٰ خان کے ساتھ مقیم تھے کہ بھارتی فوج نے محاصرہ کر لیا۔ محاصرے کے بعد مقابلہ شروع ہو گیا۔ جاوید قریشی نے جماعت اسلامی کے معروف شخصیت عبد الرشید اصلاحی عرف پیر صاحب (سیف اللہ خالد شہید) کی سنت پر عمل کرتے ہوئے مقابلہ شروع کیا اور تین گھنٹے کی معرکہ آرائی کے دوران ایک کیپٹن اور حوالدار سمیت نو فوجیوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے کے بعد تحریکِ آزادی کے اُفق پر لہو کی شفق بن کر نمودار ہوگئے۔اِن ہی مجاہدوں اور غازیوں کی جرأت اور بہادری پر حزبُ المجاہدین فخر کرتی ہے اور جاوید قریشی جیسے شہیدوں پر نازاں رہے گی۔

؎روح رواں تحریک کا جاوید تھا
دین کا غمخوار باکردار تھا
سوئے جنت جب چلا وہ باصفا
نعرہ تکبیر کا گفتار تھا
ہوگئے محروم شفقت سے سبھی
ہمدرد تھا پر اسرار تھا
دل میں فکرِ مودودیؒ تھی موجزن
اس فکر کا تو سالار تھا
قارئین کرام! شہادت سے ایک ہفتہ پہلے ریڈیو صدائے حریت کشمیر کو انٹرویو دیتے ہوئے آپ نے کہا اللہ کا فضل وکرم اور قوم کے بزرگوں کی نیک دُعاؤں سے مجاہدین موجودہ حالات میں دشمن کو لوہے کے چنے چبوا رہے ہیں۔ ہر جگہ سے دشمن کے بارے میں جو خبریں مل رہی ہیں وہ حوصلہ افزاء ہیں، کہیں اِن میں باہمی جھڑپیں ہو رہی ہیں اور کہیں ایسی غلطیاں کر رہے ہیں جن سے کئی فوجی ایک ساتھ ہلاک ہو جاتے ہیں۔ مجاہدین کے ہاتھوں دشمن نے جو نقصان اُٹھایا۔ وہ ایک طویل داستان ہے۔ میں اس وقت صرف اُن باتوں کا ذکر کر رہا ہوں جو مجاہدین کو اپنی کارروائیوں اور شہادتوں کے نتیجے میں دیکھنا پڑ رہی ہیں۔ فوج کے اندر ڈپریشن کی وباء پھیل رہی ہے، نا اُمیدی اور نامرادی اُن کا مقدر بن چکی ہے۔ اُن کے حوصلے جواب دے چکے ہیں۔ البتہ اِن حالات میں بھی دشمن کو اپنے سے زیادہ طاقتور ، ہوشیار اور چالاک سمجھنا ہوگا ، رہا سوال مجاہدین کے حوصلوں کا ، تو اللّٰہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے حزبُ المجاہدین کے سرفروشوں نے اپنے تو اپنے غیروں پر بھی ثابت کر دیا کہ سر کٹا سکتے ہیں لیکن سر جھکا نہیں سکتے، وعدہ کو نبھائیں گے ضرور۔یہی ہمارا عزم ہے اور یہی ہمارے حوصلے ہیں۔ڈپٹی سپریم کمانڈر غازی رفیع الدین نے آپ کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوے کہا! کہ جاوید قریشی تحریکِ آزادی کا گل سرسبد تھا جس سے صوبہ جموں میں جہاد کی راہیں روشن ہوئیں صوبہ جموں میں جہاد کو منظم کرنے میں آپ کا بنیادی کردار ہے۔ اُن کی جدائی سے حزبُ المجاہدین اور تحریکِ آزادی لائق اور نیک کمانڈر سے محروم ہوگئی ہے۔ آپ جیسے کمانڈر خال خال ہی پیدا ہوتے ہیں اُن کی کمی کو ہم مدتوں محسوس کریں گے۔اس جری مجاہد کی نمازِ جنازہ اُن کے عظیم باپ نے خود پڑھائی۔ اُن کے عزم و ارادے میں کوئی فرق نہیں آیا۔ لوگ اُن سے مل کر مبارکباد دے رہے تھے۔ ہزاروں لوگ اِس موقع پر موجود تھے جنہوں نے حزبُ المجاہدین اور پاکستان کے حق میں نعرے بلند کئے۔مجاہد طاہر بلال کہتے ہیں کہ جس علاقے میں جاوید قریشی صاحب شہید ہوگئے وہاں سے فوجی کیمپ ہٹایا گیا کیونکہ وہ فوجی افسر اور جوان جن کے ہاتھوں جاوید قریشی کی شہادت واقع ہوئی تھی وہ جاوید قریشی شہید کو سفید لباس میں راتوں کو گھوڑے پر سوار ہو کر حملہ آور ہوتے دیکھتے اُن کی نیندیں حرام ہوگئیں تھیں اِس لئے مجبوراََ اُنہوں نے وہاں سے کیمپ ہٹایا اور عوام کو ذرا سکھ کا سانس لینے کا موقع ملا۔