اسامہ حیدر
ایک بے مثل مجاہد، ایک صالح و متقی نوجوان، دن کا شہسوار، رات کا راہب، سینکڑوں مجاہدین کا استاد، معسکر خالد بن ولید کا مایہ ناز ذمہ دار کمانڈر عمیر حمزہ شہیدؒ ہم سے ہزاروں کلومیٹر دور مقبوضہ کشمیر کے ضلع سوپور کے ایک گائوں میں ردائے خاک اوڑھے سو رہا ہے۔ وہ ہماری ظاہری آنکھ سے پنہاں ہوگیا ہے مگر چشمِ باطن سے میں اب بھی اسے دیکھ رہا ہوں۔ یہ دیکھو اس کا بدن گولیوں سے چھلنی ہے، اس کا لباس خون سے تربتر وہ مسکرا رہا ہے جو لوگ اسے جانتے ہیں جنہوں نے زندگی کے کچھ لمحے اسکی صالح محبت میں گزارے ہیں انہیں معلوم ہوگا کہ جب وہ مسکراتا تھا تو صرف ہونٹ ہی نہیں اُسکی آنکھیں بھی مسکراتی ہوئی معلوم ہوتی تھیں اور اب وہ بالکل اسی طرح مسکراتے ہونٹوں اور متبسّم آنکھوں کے ساتھ گولیوں سے چھلنی سینہ ہے میرے سامنے روبرو کھڑا دکھائی دے رہا ہے اور کہہ رہا ہے۔۔۔۔ دیکھا میں کتنا مستجاب الدعا ہوں میں نے تیرے سامنے اپنے رب سے شہادت کی دعا مانگی تھی۔ دیکھا تو نے وہ قبول ہوئی۔

برادر عمیر حمزہؒ شہید سے میری پہلی ملاقات نومبر 2004ء میں معسکر خالد بن ولیدؓ میں ہوئی۔ اس وقت اُنکی عمر محض 18 سال تھی، داڑھی ابھی ابھی تھوڑی آئی تھی اور جسمانی طور پر بھی کمزور ہی تھے۔ اس وقت وہ تربیت کیلئے آئے تھے۔ حقیقی بات تو یہ ہے کہ اُنکی جسمانی کمزوری کبھی بھی اُنکی تربیت کے حصول میں رکاوٹ نہیں بنی۔ وہ ایک بلند ہمت نوجوان تھا جس کو میں نے کبھی بھی خوفزدہ نہیں دیکھا۔ دورانِ تربیت وہ اکثر بیمار رہتے تھے لیکن اسکے باوجود وہ دورۂ عزیمت کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
جہادی نام عمیر حمزہ اور اصل نام زاہد نذیر رکھنے والا یہ نوجوان 1986ء میں ضلع رحیم یار خان کی نواحی بستی رسول پور میں محترم نذیر احمد کے گھر میں پیدا ہوا۔ پرائمری تک بستی رسول پور اور اُسکے بعد میٹرک کا امتحان امین گڑھ ہائی سکول سے پاس کیا۔ سات بہن بھائیوں میں وہ چھٹے نمبر پر تھا۔ پیدائش کے موقع پر نذیر احمد صاحب کے خیال میں بھی نہ آیا ہوگا کہ اُنکا یہ بیٹا بڑا ہوکر کتنا عظیم ہوگا اور ابن قاسم کی مانند مظلوم بہنوں اور مائوں کی غمگین چیخوں، سسکیوں اور آہوں پر لبیک کہتے ہوئے بارہ ہزار فٹ بلند چوٹیوں کو روندتا ہوا سرزمین کشمیر پہنچے گا اور تین سال تک بھارتی ظالم فوج سے بر سرپیکار رہ کر اس جام کو پی لے گا جس کی خواہش میرے اور آپکے پیارے نبی امام المجاہدین، رحمت اللعالمین حضرت محمدﷺ نے اپنی زندگی میں کئی بار کی۔
تربیت حاصل کرنے کے کچھ عرصہ بعد وہ دوبارہ واپس مجاہدین حزب کے مسکن میں واپس آجاتے ہیں اور محاذ پر جانے کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں لیکن یہاں نظم کی اطاعت راستے کی رکاوٹ اور پیروں کی زنجیر بنتی ہے۔ اُنکو کہا جاتا ہے کہ فی الحال کیمپ ہی میں رکنا ہے اور مجاہدین کی خدمت اور تربیت کے فرائض انجام دینے ہیں۔

شہادت کی تڑپ عمیر حمزہ شہید کی رگ رگ میں رچی بسی تھی، ان کا لہو راہِ خدا میں بہہ جانے کو بے قرار تھا اس لئے جب بھی موقع ملتا وہ اپنی اس خواہش کا اظہار نائب امیر حزب المجاہدین مولانا جاوید قصوری صاحب سے کرتے۔ پھر وہ لمحہ بھی آگیا جب اُمید بھر آئی اور انہیں کشمیر جانے کی اجازت مل گئی۔ یہ اجازت اُنکے لیے جنت کا پروانہ بن گئی۔ ہمارا یہ وفا شعار ساتھی ہر وقت مصروفِ عمل رہنے والا بھائی چپکے چپکے اپنے دل کی باتیں اپنے رب سے کیا کرتا تھا۔ نہ جانے اس نے شہادت کے گہر آبدار کو پانے کیلئے اللہ سے کتنا اصرار کیا ہوگا، کس قدر رویا ہوگا اور کیسا کیسا گڑ گڑایا ہوگا اس کی آہِ سحر گاہی نے کاتبِ تقدیر کو اسے سرفراز کرنے پر آمادہ کر ہی دیا۔
اجازت ملنے کے بعد عمیر حمزہ بھائی نے بارڈر کا رُخ کیا اور پھر تقریباً 2005ء سے لیکر 2007ء تک انہوں نے 15 بار کوشش کی لیکن کامیابی نہ مل سکی۔ دو دفعہ ان کے ساتھ کوشش کرنے کا اعزاز راقم کو بھی حاصل ہوا۔ ان دو برسوں میں عمر حمزہ بھائی جسمانی طور پر اتنے مضبوط ہوگئے تھے کہ ان کے ساتھ والے ساتھی بتاتے ہیں کہ کسی بھی کوشش میں وہ پیچھے نہ رہے۔ دبلا پتلا سا یہ لڑکا سب سے آگے گائیڈ حضرات کیلئے بھی حیرت کا باعث تھا۔
آخر کار قبولیت کی وہ گھڑی بھی آئی جس کا تین سال عمیر بھائی نے انتظار کیا تھا۔ اکتوبر 2007ء کو وہ حزب المجاہدین کے ایک گروپ میں شامل تھے جس میں کچھ غازی مجاہدین بھی تھے، بلند و بالا پہاڑی سلسلہ اور برفانی چوٹیوں کو عبور کرتے ہوئے یہ گروپ 6 دن کی مسافت کے بعد وادیٔ پُرخار میں پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ اکتوبر 2007ء سے 2010ء کے آخر تک تقریباً تین سال عمیر بھائی مقبوضہ وادی میں موجود رہے۔ انہوں نے مختلف مواقع پر کاروائیاں کرتے ہوئے سینکڑوں غاصب ہندو فوجیوں کو واصلِ جہنم کیا۔ کچھ عرصہ ہایہامہ میں رہنے کے بعد وہ راجواڑ چلے گئے، پھر لولاب اور پھر نظم کی اطاعت کرتے ہوئے وہ سوپور پہنچ گئے۔ وہ جہاں بھی گئے ہندوستان آرمی کو ناکوں چنّے چبوائے۔ بہت عرصہ تک انہوں نے کشمیر کے گیٹ وے سے مجاہدین کو وصول کیا اور گروپ محفوظ ٹھکانوں تک پہنچائے اور پھر اُنکی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے نظم نے ان کو ضلع کپواڑہ کا ڈسٹرکٹ کمانڈر مقرر کردیا۔
عمیر حمزہ بھائی سے موبائل پر بیسیوں دفعہ بات ہوئی ان سے جب بھی بات ہوتی وہ اپنے لئے ثابت قدمی اور شہادت کی دُعا کا کہتے۔ ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ جب ان کے ساتھی ایک ایک کرکے شہید ہوگئے اور کچھ ساتھی غازی بن کر واپس آگئے جن میں جیکب آباد سے تعلق رکھنے والے حنظلہ بھائی (بہرام خان) شامل ہیں۔ عمیر بھائی اپنے پوائنٹ پر اکیلے رہ گئے۔ یہ کسی بھی مجاہد کیلئے مشکل وقت ہوتا ہے جب اچانک ساتھی بچھڑ جائیں اور اسے تن تنہا اپنے پوائنٹ پر سارے امور سرانجام دینے پڑیں لیکن اس مشکل وقت میں بھی کبھی ان کے منہ سے مایوسی کے الفاظ نہ نکلے اور وہ ہمیشہ ثابت قدم رہے۔
ایک دفعہ انہوں نے اپنی والدہ سے بات کرتے ہوئے ان سے شکوہ کیا کہ آپ میرے لیے سچے دل سے شہادت کی دعا کیوں نہیں کرتیں تو اس عظیم والدہ نے ان کو کہا کہ میں نے آپ کو دل کی آمادگی سے محاذ پر جانے کی اجازت دی تھی اور آپ کیلئے سچے دل سے ثابت قدمی اور شہادت کی دعا کرتی ہوں۔ (ہماری سب کی یہ عظیم ماں عمیر بھائی کی شہادت کے دو ماہ بعد اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملی) اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند کرے اور اُنکی خطائوں کو معاف کرے۔
19؍ اور 20؍ نومبر 2010ء کی درمیانی شب کمانڈر عمیر حمزہ شہید کی سوپور میں بھارتی فوج سے خونریز جھڑپ ہوتی ہے۔ عمیر حمزہ بھائی بھارتی فوجیوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ آپ کے ساتھ عبیداللہ بھائی بھی تھے۔ اس لڑائی میں عبیداللہ بھائی بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر رب سے شہادت کی دعائیں مانگنے والا میرا عظیم بھائی کمانڈر عمیر حمزہ پانچ ہندو گماشتوں اور دو پولیس اہلکاروں کو جہنم واصل کرکے خالقِ حقیقی سے جا ملتا ہے۔ اس لڑائی میں متعدد فوجی زخمی ہو جاتے ہیں۔






