یقین افراد کا سرمایہ تعمیر ملت ہے

مہتاب عزیز

اپریل 1915ء سے جنوری 1916ء کے درمیان درہ دانیال کے دھانے پر واقع، جزیرہ نما گیلی پولی پر خلافت عثمانیہ اور اتحادیوں کے درمیان پہلی جنگ عظیم کا سب سے خون ریز معرکہ لڑا گیا تھا۔
تب کے Lord of the Admiralty ونسٹن “چرچل” نے اس جنگ کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا! ہم ترکی پر ایسی افواج سے حملہ کر رہے ہیں، جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں مل سکتی۔ ہم فضا سے عقابوں کی طرح جھپٹیں گے۔ پانی کی موجوں کے نیچے سے حملہ آور ہوں گے۔ ہماری افواج بجلی کی لہروں سے رابطے میں رہیں گی۔ ہمارے کیمیا گروں نے ایسا تباہ کن بارد تیار کر لیا ہے، جو دشمن کو مکمل برباد کر دینے کی اہلیت رکھتا ہے۔
(اس معرکے میں پہلی بار ائیر فورس، آبدوز اور وائرلیس کا بڑے پیمانے جنگی استعمال کیا گیا تھا)

اتحادی افواج میں برطانیہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، فرانس اور کینیڈا کی افواج شامل تھیں۔ (برطانوی ہندوستان کی فوج سنگاپور سے پہنچی تھی، پانچ نمبر پلٹن کے مسلمان سپاہیوں نے لڑنے سے انکار کیا تھا، جنہیں فائرنگ سکواڈ کے ذریعے سزائے موت دی گئی تھی) اتحادی افواج درہ دانیال سے گزر کر عثمانی دارالخلافہ استنبول پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ تاکہ باسفورس پر کنٹرول حاصل کیا جا سکے۔

19 فروری 1915ء کو اتحادی افواج نے درہ دانیال پہنچنا شروع کیا۔ اور گولہ باری کا آغاز کیا۔ 25 اپریل کو عام حملہ کیا گیا۔

تاہم ترکوں کی بے مثل مزاحمت اور شجاعت نے اتحادیوں کا ابتدائی حملہ پسپا کر دیا۔ گیارہ مہینے جاری رہنے والی اس جنگ میں 7 لاکھ ترک شہید اور ساڑھے پانچ لاکھ اتحادی فوجی مارے گئے۔ لیکن اتحادیوں کے تمام جنگی منصوبے ناکام ہو گئے۔ وہ نہ صرف پیش قدمی کرنے سے قاصر رہے۔ بلکہ اتنی بڑی فوج کے لیے سمندر سے سپلائی لائن برقرار رکھنا ناممکن ہوتا چلا گیا۔
قریبا ایک سال تک جاری رہنے والے جدید دور کے اس عظیم معرکے میں اتحادیوں کی مشترکہ افواج کو تنہا خلافت عثمانیہ کی فوج نے ذلت آمیز شکست سے دو چار کر دیا۔ اتحادیوں نے 9 جنوری 1916ء کو گیلی پولی سے نکلنے کا اعلان کیا تھا۔
جس پر علامہ اقبال نے یہ جذباتی اشعار کہے تھے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عقابی شان سے جھپٹے تھے جو، بے بال و پر نکلے
ستارے شام کے خون شفق میں ڈوب کر نکلے
ہوئے مدفون دریا، زیر دریا تیرنے والے
طمانچے موج کے کھاتے تھے، جو بن کر گُہر نکلے
غبارِ رہ گزر ہیں، کیمیا پر ناز تھا جن کو
جبینیں خاک پر رکھتے تھے، جو اکسیر گر نکلے
ہمارا نرم رو قاصد پیامِ زندگی لایا
خبر دیتی تھیں جن کو بجلیاں، وہ بے خبر نکلے
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے ادھر نکلے، ادھر ڈوبے ا دھر نکلے
یقین افراد کا سرمایہ تعمیر ملت ہے
یہی قوّت ہے جو صورت گر تقدیر ملت ہے