جموں کانوحہ، بھولاہوا ہولوکاسٹ

نہ عالمی عدالت بولی، نہ کوئی قرارداد آئی، صرف قبریں بڑھتی گئیں، اور دنیا گنتی بھول گئی

جب جموں کی زمین نے خون کے دریا میں انسانیت کو بہتے دیکھا

جب سورج لہو میں نہایا، فضا میں اذانوں کی بجائے چیخوں کی بازگشت گونجتی رہی

دو لاکھ سینتیس ہزار لاشیں… اور دنیا خاموش رہی، کسی نے آنکھ اٹھائی، نہ کسی ضمیر نے سوال کیا

جموں کی وہ کہانی، جو دنیا کی تاریخ نے نظرانداز کر دی یہ کہانی اعداد و شمار کی نہیں، عالمی ضمیر کا ماتم اور انسانیت کی موت ہے

سید عمر اویس گردیزی

کہتے ہیں زمین کبھی جھوٹ نہیں بولتی۔ جہاں خون گرتا ہے، وہ مٹی ہمیشہ یاد رکھتی ہے کہ اس کے سینے پر کن لوگوں نے قربانی کا چراغ جلایا تھا۔ جموں کی وہ مٹی بھی آج تک سرخ ہے، جو کبھی آزاد کشمیر کے خواب دیکھنے والوں کے لہو سے تر ہوئی۔ سرد ہواؤں میں بھی اس کی خوشبو میں شہادتوں کا رنگ گھلا ہے۔ جب اکتوبر اور نومبر کے مہینے آتے ہیں، تو کشمیر کی وادیاں خاموش نہیں رہتیں، وہ اپنے شہیدوں کی صدا سنتی ہیں، جنہوں نے ” لا الہ الا اللہ” کی صدا بلند کرتے ہوئے اپنے خون سے تاریخ لکھی۔ یومِ شہدائے جموں… یہ کوئی عام دن نہیں، یہ ایک ایسی تاریخ ہے جو دلوں کو چیر دیتی ہے۔ 1947ء کا وہ خونی موسم خزاں، جب تقسیم ہند کے شور میں جموں کی وادیوں سے چیخیں بلند ہوئیں۔ وہ عورتیں جن کے ہاتھوں میں کبھی پھولوں کی ٹوکریاں ہوتی تھیں، ان ہاتھوں میں بچوں کی لاشیں تھیں۔ وہ مرد جنہوں نے خواب دیکھے تھے آزادی کے، ان کے سینے چھلنی تھے۔
تاریخ کہتی ہے کہ اس ایک ظلم کے موسم میں تقریباً دو لاکھ سے زائد کشمیری مسلمانوں کو بے دردی سے شہید کیا گیا۔ کچھ مستند ذرائع کے مطابق یہ تعداد دو لاکھ سینتیس ہزار سے بھی زیادہ تھی، ایک ایسی گنتی جسے صرف قلم نہیں، دل سے لکھا جا سکتا ہے۔ وہ ٹرک جب صبح کی دھند میں نکلے تو ان کی چھتوں پر کھڑے لوگ ایک نئے سفر کی امید لئے لگے ہوئے تھے۔ بچوں کے سر چھوٹے برتنوں والی ٹوکریاں، ماؤں نے چھوٹے چھوٹے کپڑے باندھے، بزرگ اپنی چوڑیاں اور یادوں کو سینے سے سہارا دئے۔ ریاستی اہل کاروں نے انہیں یقین دلایا کہ ’’راستہ محفوظ ہے‘‘۔ مگر چند کلومیٹر آگے گھات لگی تھی: لاٹھی، تلوار، بندوقیں، اور آنکھوں میں وہ انسانیت کا وجود جو اپنی حدیں کھو چکا تھا۔ چند لمحوں میں ہزاروں زندگیاں ختم ہو گئیں؛ گھر بھسم ہوئے؛ بازار خاموش ہوئے؛ اور ایک پورا سماج خون میں لت پت ہوگیا۔ یہ صرف تعداد نہیں، یہ روئی ہوئی اذانیں، بجھی ہوئی چراغیں، اور مادّی و معنوی خلاؤں کی کہانی ہے۔
1947ء سے قبل جموں صوبے کی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب کافی وسیع تھا، عمومی اندازے کے مطابق تقریباً 60 فیصد کے آس پاس۔ ریاستِ جموں و کشمیر کا حاکم مہاراجہ ہری سنگھ کسی ایک ملک بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرنے میں تذبذب کا شکار تھا۔ جموں کے بہت سے مسلم حلقوں خصوصاً مسلم کانفرنس الحاقِ پاکستان کے حامی تھے؛ اسی سیاسی دباؤ اور آبادیاتی بحث کے تناظر میں ریاستی اور غیر ریاستی عناصر نے ایک ایسا راستہ اختیار کیا جس نے قطعی تاریخی اور انسانی نتائج کو جنم دیا۔ گزشتہ تحقیق کاروں اور گواہوں نے واضح کیا کہ یہ واقعات محض ’’بے ترتیب فسادات ‘‘نہیں تھے بلکہ ایک منظم حکمتِ عملی کے تحت انجام پانے والے ہلاکت خیز اقدامات تھے، جہاں ریاستی فورسز، مقامی بلوائی اور باہر سے آنے والے مسلح عناصر نے مشترکہ کردار ادا کیا۔ گیارہویں صدی کے تاریخی فسادات سے الگ ۔جموں کا قتلِ عام 1947 میں ایک مخصوص وقت میں شدت اختیار کرتا ہے۔
اکتوبر اور نومبر۔ اس عرصے میں خاص طور پر دیہی علاقوں، پونچھ، ریاسی اور جموں کے گردو نواح میں ہدفِ حملہ مسلمان آبادی تھی۔ متعدد رپورٹوں میں درج ہے کہ:ریاستی افواج (ڈوگرہ اسٹیٹ آرمی) نے بعض علاقوں میں مسلم شہریوں کو غیر مسلح کیا یا ان کی حفاظت کا وعدہ کرکے بے یارو مددگار چھوڑ دیا۔ آر ایس ایس اور دیگر ہندو و سکھ بلوائیوں کے جتھے باہر سے آئے، بعض رپورٹس کے مطابق مغربی پنجاب سے آئے ہوئے پناہ گزینوں نے بھی حصہ لیا، جنہیں بدلے کی آگ بھڑکانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ گھروں کو لوٹا گیا، گاؤں جلائے گئے، مرد و عورتوں پر وحشیانہ حملے ہوئے اور خواتین کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات درج ہوئے۔ یہ سلسلہ غیر متزلزل انداز میں بڑھا اور اکتوبر کے آخر تک کئی مسلم آبادی والے علاقے ویران ہونے لگے۔ زندگیاں بکھر رہی تھیں، اور بھاگتے ہوئے لوگ اسی امید پر تھے کہ انہیں ’’محفوظ راستہ‘‘ دیا جائے گا۔ نومبر کا وہ ناقابلِ فراموش ہفتہ، جب قافلوں کو ’’محفوظ‘‘ راستوں سے نکالنے کا وعدہ کیا گیا، اس تاریخ کا سب سے ہولناک باب ہے۔ قصّہ مختصر یوں ہے کہ:
رات تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر یہ کوئی عام رات نہیں تھی۔ جموں کی فضاؤں میں سناٹا نہیں، سسکیاں تھیں۔ چنار کے پتّے زمین پر نہیں گر رہے تھے، یوں لگتا تھا جیسے خون کے قطرے ٹپک رہے ہوں۔ ہوا میں جلتی بستیوں کی بو گھلی ہوئی تھی، اور آسمان کے نیچے انسانیت اپنی لاشوں کے درمیان تڑپ رہی تھی۔ کہتے ہیں چھ نومبر کی صبح آج بھی جموں کی زمین کانپ اٹھتی ہے۔ کسی ندی کے کنارے ہوا رُک جاتی ہے، کسی درخت کی شاخ لرزتی ہے، جیسے تاریخ پھر سے وہی لمحہ دہرا رہی ہو جب قافلے امن کی تلاش میں نکلے تھے اور موت نے ان کا خیرمقدم کیا تھا۔ وہ ماں جو اپنے لختِ جگر کو چھاتی سے لگائے چل رہی تھی، اچانک فضا گولیوں سے بھر گئی، اور بچے کے بجائے اس کی آغوش میں خاموشی رہ گئی۔ وہ نوجوان جو مستقبل کے خواب لیے رواں تھے، راستے میں خون کے دریا بن گئے۔ اور وہ زمین، جس نے ان کے قدموں کے نشان سنبھالنے تھے، خون میں نہا کر تاریخ کا ماتم بن گئی۔
یہ چھ نومبر 1947 کی شام تھی۔ خزاں کے رنگوں میں لپٹی وادی جموں میں انسانیت کا سب سے سیاہ باب لکھا جا رہا تھا۔ اُس وقت پاکستان اور بھارت کے قیام کو چند ماہ ہی گزرے تھے۔ ایک طرف نئی آزادی کا جشن تھا، اور دوسری طرف جموں کی زمین پر بستیوں کے چراغ بجھائے جا رہے تھے۔ ریاست جموں و کشمیر میں اُس وقت کے مہاراجہ ہری سنگھ نے وہ فیصلہ کیا جس نے لاکھوں مسلمانوں کی زندگیاں اندھیروں میں دھکیل دیں۔ پاکستان سے وفاداری رکھنے والے، اپنی زمین پر رہنے والے مسلمانوں کو ’’غدار‘‘ ٹھہرا دیا گیا۔ گاؤں کے گاؤں خالی کرا لیے گئے، مردوں کو الگ، عورتوں اور بچوں کو الگ قطاروں میں کھڑا کر دیا گیا۔ نومبر کے ابتدائی دنوں میں، صرف جموں کے علاقے سے دو لاکھ سینتیس ہزار سے زائد مسلمان بے دردی سے شہید کر دیے گئے۔ یہ کوئی کہانی نہیں، یہ اقوامِ متحدہ کی دستاویزات میں درج حقیقت ہے۔ ان میں بوڑھے بھی تھے، جوان بھی، عورتیں اور بچے بھی۔ کچھ کو زندہ جلایا گیا، کچھ کو دریاؤں میں پھینک دیا گیا، اور کچھ کو قافلوں کے نام پر جمع کر کے گولیوں سے بھون دیا گیا۔ پوری دنیا خاموش رہی۔ کوئی اقوامِ عالم چیخ نہ اٹھی، نہ کسی نے انسانیت کے قاتلوں سے سوال کیا۔ جموں کی زمین لہو سے سرخ ہو گئی، اور وہ سرخی آج تک مٹی کے اندر سے جھلکتی ہے۔ کبھی سوچا ہے کہ ایک ماں اپنے بیٹے کو کندھوں پر اٹھا کر قافلے میں چلتی ہو، اور جب آگے پہنچے تو قافلہ زندہ نہیں، لاشوں کا ڈھیر بن چکا ہو، وہ کیسا منظر ہوگا؟ وہ بچے، جنہیں پاکستان کے پرچم کی تصویریں دکھا کر بتایا گیا تھا کہ ’’یہ تمہارا وطن ہوگا جہاں تم آزاد ہوگے‘‘، وہی بچے راستے میں اپنی ماؤں کے ہاتھوں میں دم توڑ گئے۔ ایک بوڑھا شخص کہتا تھا: ’’میں نے ساری زندگی ظلم برداشت کیا مگر یہ سوچ کر زندہ رہا کہ آزادی ضرور آئے گی، لیکن جب آزادی آئی تو ہمارے لیے قبریں لے کر آئی‘‘ یہ صرف ماضی کی داستان نہیں، یہ آج بھی ہمارے ضمیر پر ایک زخم کی طرح تازہ ہے۔ جب بھی کوئی کشمیری ماں اپنی کھڑکی سے پہاڑوں کی طرف دیکھتی ہے، تو اسے لگتا ہے جیسے وہاں اب بھی کسی ویران وادی میں خون خشک نہیں ہوا۔۔ یہ دن محض یادگار نہیں، یہ دن ایک عہد کی تجدید ہے کہ ’’ہم اپنے شہداء کو نہیں بھولیں گے، ہم ان کے خون کا قرض چکائیں گے‘‘۔ چھ نومبر اس لیے منایا جاتا ہے کہ دنیا کو یاد دلایا جا سکے کہ یہ آزادی مفت میں نہیں ملی، یہ خون کے دریا عبور کر کے حاصل ہوئی ہے۔ یہ دن اس لیے زندہ ہے کیونکہ جموں کے شہداء نے موت سے ڈرنے کے بجائے اسے گلے لگا لیا تھا۔ یہ سوال آج بھی ہر کشمیری کے دل میں جلتا ہے، اتنی قربانیاں، اتنا خون، اتنی نسلیں قربان ہو گئیں، پھر بھی آزادی کیوں نہیں ملی؟ جواب کڑوا ہے، مگر سچ ہے۔ دنیا نے انصاف کو مفاد کی دیوار کے پیچھے قید کر رکھا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں آج بھی کاغذوں میں دفن ہیں۔ بھارت نے اپنی فوجوں کے ذریعے وادی کو قید کر رکھا ہے، اور عالمی ضمیر خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔
دوسری طرف، خود مسلم دنیا کی بے حسی نے بھی ان زخموں کو گہرا کر دیا ہے۔ کشمیر کے خون پر سیاست ہوتی رہی، نعرے لگے، جلسے ہوئے، تصویریں بنیں، مگر عملی قدم کبھی نہ اٹھایا گیا۔ شہداء جموں کا خون آج بھی پکار رہا ہے: ’’ہم نے قربانی دی، تم نے کیا کیا؟‘‘ یہ پکار ہمیں جگانے کے لیے ہے، شرمندہ کرنے کے لیے نہیں۔ کشمیر کی مٹی آج بھی گواہ ہے۔ ہر چنار کا پتّا، ہر ندی کا پانی، ہر پہاڑ کی چپ، شہداء کی روحوں کی گواہی دیتا ہے۔ جب کبھی برف پڑتی ہے، تو لگتا ہے جیسے زمین اپنے زخموں پر سفید کفن ڈال رہی ہو۔ مگر جیسے ہی بہار آتی ہے، پھولوں کے رنگوں میں وہی خون جھلک اٹھتا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ بندوقوں سے نہیں، بلکہ انصاف اور ضمیر کے فیصلے سے حل ہوگا۔ اور جب تک یہ انصاف نہیں ملتا، چھ نومبر ہر سال ایک نئی چیخ بن کر ابھرتا رہے گا۔ یومِ شہداء جموں ہمیں یاد دلاتا ہے کہ آزادی کبھی تحفہ نہیں ہوتی، یہ ان کے خون سے لکھی جاتی ہے جو اپنے ایمان پر ڈٹے رہتے ہیں۔ یہ دن ہمیں شرمندہ بھی کرتا ہے، اور جگاتا بھی ہے، کہ کہیں ہم اپنے شہداء کے خواب بھول تو نہیں گئے؟ کہیں ہم نے ان کے لہو سے بنے راستے کو دنیاوی مصروفیات میں گم تو نہیں کر دیا؟
یومِ شہدائے جموں کوئی عام دن نہیں، یہ ایک ایسی تاریخ ہے جو دلوں کو چیر دیتی ہے۔ 1947ء کا وہ خونی موسمِ خزاں، جب تقسیم ہند کے شور میں جموں کی وادیوں سے چیخیں بلند ہوئیں۔ وہ عورتیں جن کے ہاتھوں میں کبھی پھولوں کی ٹوکریاں ہوتی تھیں، ان ہاتھوں میں بچوں کی لاشیں تھیں۔ وہ مرد جنہوں نے خواب دیکھے تھے آزادی کے، ان کے سینے چھلنی تھے۔ تاریخ کہتی ہے کہ اس ایک ظلم کے موسم میں تقریباً دو لاکھ سے زائد کشمیری مسلمانوں کو بے دردی سے شہید کیا گیا۔ کچھ معتبر ذرائع کے مطابق یہ تعداد دو لاکھ سینتیس ہزار سے بھی زیادہ تھی، ایک ایسی گنتی جسے صرف قلم نہیں، دل سے لکھا جا سکتا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب جموں کی سرزمین قیامت کا منظر پیش کر رہی تھی۔ گھروں کے دروازے بند تھے مگر دلوں میں طوفان برپا تھا۔ عورتوں نے اپنی عزت بچانے کے لیے دریاؤں میں کود کر جان دے دی، بچوں کو ماں کی گود سے چھین لیا گیا، مردوں کو قطاروں میں کھڑا کر کے گولیوں سے بھون دیا گیا۔ یہ سب کچھ صرف اس لیے کہ وہ مسلمان تھے، وہ آزادی چاہتے تھے، وہ پاکستان سے محبت کرتے تھے۔ وہ نعرہ لگاتے تھے ’’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘‘، اور اس نعرے کی پاداش میں ان کی نسلیں مٹا دی گئیں۔
اعداد و شمار کے متعلق صورتحال پیچیدہ اور متضاد ہے۔ مختلف محققین اور رپورٹس نے مختلف تعدادیں بتائیں جن میں بڑا فرق پایا جاتا ہے۔ چند قابلِ ذکر تخمینوں کے مطابق بعض مغربی محققین اور معاصر تاریخ دان 20,000 سے 100,000 کے درمیان ہونے والی ہلاکتوں کو بنیادی حد سمجھتے ہیں۔ کچھ صحافتی رپورٹس اور ادیبوں نے اس وقت کے حالات کے تناظر میں تقریباً 200,000 کے قریب افراد کے مارے جانے یا بے گھر ہونے کا ذکر کیا۔ تاہم ایک معروف حوالہ 10 اگست 1948 کو شائع ہونے والی برطانوی اخبار The Times کی رپورٹ ہے، جس میں بتایا گیا کہ قریب 237,000 مسلمان یا تو قتل ہوئے یا انہیں زبردستی پاکستان ہجرت پر مجبور کیا گیا۔ یہ عدد اس رپورٹ میں جموں کی کل مسلم آبادی، جو اس وقت تقریباً 411,000 تھی، کے سیاق میں دیا گیا۔ بعد میں اسی مخصوص عدد کو کئی رپورٹس، مقالوں اور تاریخی حوالہ جات میں بار بار نقل کیا گیا، اور یہ ایک طرح سے اس سانحے کی علامتی شناخت بن گیا۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ یہ عدد The Times کے نمائندے کی آن گراؤنڈ رپورٹنگ اور اس وقت کے غیر حتمی سرکاری اعداد و شمار کے امتزاج پر مبنی تھا، لہٰذا اسے قطعی یا آخری اعداد نہیں سمجھا جا سکتا۔ کچھ جدید مورخین نے اس کی تصدیق کی ہے،۔ پاکستانی و کشمیری مؤرخین اور قومی بیانیے میں یہ اعداد و شمار مزید بلند دکھائے گئے، جن کے مطابق 250,000 سے 300,000 تک مسلمانوں کی شہادت یا جبری ہجرت واقع ہوئی۔ اس اختلاف کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے تو اس عہد میں جامع اور محفوظ ریکارڈ نہ ہونے کے برابر تھا۔ تقسیم کے دوران ہونے والے فسادات، ہجرتوں اور جنگی حالات نے انتظامی نظام کو درہم برہم کر دیا تھا۔ کئی ریکارڈز بکھر گئے، ضائع ہو گئے یا سیاسی مصلحتوں کے تحت بدل دیے گئے۔ دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ مختلف محققین نے اپنی تحقیق میں مختلف پیمانے اپنائے۔ کچھ نے صرف ’’ہلاک شدگان‘‘ کو شمار کیا، جب کہ دیگر نے ’’ہلاک شدگان اور جبری ہجرت پر مجبور ہونے والے‘‘ دونوں کو شامل کر لیا۔ یہی فرق بڑے عددی تفاوت کا سبب بنا۔
کچھ رپورٹس میں صرف جموں شہر یا قریبی دیہات شامل تھے، جب کہ دیگر میں پورے خطے کے اعداد دیے گئے۔ تیسری وجہ اخباری حساسیت اور سیاسی پروپیگنڈا ہے۔ تقسیم کے فوراً بعد اخبارات نے اپنے اپنے نظریاتی جھکاؤ کے مطابق خبریں شائع کیں۔ کہیں پر ردِ عمل کے تحت مبالغہ کیا گیا، کہیں مخصوص سیاسی مقاصد کے لیے تعداد بڑھائی گئی، تو کہیں دردناک حقیقتوں کو چھپایا گیا۔ ان تمام عوامل نے اعداد کو دھندلا دیا، مگر درد کو کبھی ماند نہیں کیا۔ اگرچہ برطانوی اخبار The Times کی رپورٹ میں 237,000 کا عدد سب سے زیادہ حوالہ دیا گیا، اور اسے ہی زیادہ معتبر سمجھا جاتا ہے۔
بہرحال اس تعداد کی بنیاد پر ہی یومِ شہداء جموں کی یاد میں لاکھوں لوگوں کے دلوں میں وہی سوال آج بھی زندہ ہے، اتنی قربانیوں کے بعد بھی آزادی کا خواب ادھورا کیوں ہے؟ ان اعداد کے پیچھے صرف شماریات نہیں، کہانیاں ہیں۔ ان کہانیوں میں ایک ’’آمینہ بی بی‘‘ بھی ہے۔ وہ کہتی ہے ’’ہمیں بتایا گیا تھا کہ سب ٹھیک رہے گا۔ ہم نے بچوں کو ٹوکریوں میں رکھ دیا، بوڑھی ماں اپنے جھاڑو کی چھڑی پکڑے، ہم ٹرک میں چڑھے۔ راستے میں ایک جگہ پر سبھی کو روک دیا گیا۔ پہلے پتھر برسائے گئے، پھر انہوں نے ہمیں نکالنا شروع کیا۔ بچوں نے چلانا شروع کیا۔ ایک نے کہا ماں بچاو، میں نے اپنے بیٹے کو سینے سے لگایا تو وہ ٹھنڈا پڑا ہوا تھا۔ میں نے دیکھا کہ میری بہن کو ایک آدمی آگے لے جا رہا ہے۔ میں چلاتی رہی مگر میری آواز ختم ہوگئی۔ یہ صرف ایک عورت کی آواز نہیں تھی، بلکہ ہزاروں ماؤں کی خاموش چیخ تھی‘‘۔
ان کہانیوں کے ورق آج بھی کشمیر کی ہوا میں بکھرے ہیں۔ گواہی دینے والے اب نہیں رہے، مگر ان کے زخم آج بھی دریا کے پانی میں، چنار کے پتوں میں، اور شہیدوں کی قبروں پر کندہ ہیں۔ چھوٹے جوتوں کی قطاریں، ادھ کھلے بستے، اور ماں کی گود میں جمے آنسو، یہ سب گواہ ہیں کہ تاریخ نے انسانیت کو کس طرح روند ڈالا۔ تحقیقات کے مطابق یہ سب اچانک نہیں ہوا۔ مختلف گواہیاں اور تاریخی تجزیے اس بات پر متفق ہیں کہ ریاستی اداروں کے بعض عناصر، مقامی دولت مند افراد، آر ایس ایس کے شدت پسند گروہ، اور باہر سے آنے والے مسلح لوگوں نے مل کر ایک منظم تشدد کو جنم دیا۔ کئی بین الاقوامی مطالعات نے اسے ethnic cleansing یا state-aided massacre کے طور پر بیان کیا ہے۔ قانونی اصطلاحات میں اسے نسل کشی کہنا پیچیدہ ضرور ہے، مگر اخلاقی و انسانی نقطۂ نظر سے یہ اس سے کم نہیں۔ ان واقعات میں خواتین اور بچوں پر ڈھائے گئے مظالم انسانیت کی تاریخ کا سیاہ باب ہیں۔ اغواء، تشدد اور جنسی زیادتی کے بے شمار واقعات درج ہوئے۔ کئی عورتیں کبھی واپس نہ آ سکیں، اور جو آئیں وہ خاموشی میں دفن ہو گئیں۔ یہ صرف افراد کا زخم نہیں تھا، بلکہ پورے معاشرے کے وجود پر وار تھا۔ یہ زخم نسلوں تک منتقل ہوئے، اعتماد ٹوٹ گیا، اور برادریوں کے درمیان نفرت کی دیواریں بلند ہو گئیں۔ جموں کے یہ واقعات محض ایک مقامی المیہ نہیں تھے، بلکہ انہوں نے پورے کشمیر کے سیاسی اور جغرافیائی نقشے کو بدل دیا۔
انہی خون آلود راستوں سے وہ تنازعہ شروع ہوا جس نے جنوبی ایشیا کی سیاست کو دہائیوں تک اپنی گرفت میں رکھا۔ قبائلی لشکروں کی مداخلت، بھارتی فوجی کارروائیاں، اقوامِ متحدہ کی قراردادیں، یہ سب اسی سانحے کے پس منظر سے ابھرے۔ آج تک کشمیر کا مسئلہ دنیا کے سب سے پرانے غیر حل شدہ تنازعات میں شمار ہوتا ہے، اور اس کی بنیاد انہی دنوں کے زخموں میں پیوست ہے۔ افسوس کہ ان متاثرین کے خاندانوں کو آج تک انصاف نہیں ملا۔ نہ کوئی بین الاقوامی کمیشن قائم ہوا، نہ کسی نے سچائی کی تلاش کے لیے جامع تحقیق کی۔ وقت گزرنے کے ساتھ گواہ خاموش ہو گئے، لیکن ان کے وارث آج بھی اس سوال کے ساتھ زندہ ہیں کہ آخر ان کے خون کا حساب کون دے گا۔ عدم تلافی نے غم کو وراثت بنا دیا، ایک ایسی وراثت جس کا بوجھ نسل در نسل منتقل ہو رہا ہے۔ یہ سب محض تاریخ نہیں، ایک اخلاقی عہد ہے۔ جب ہم ان اعداد کو پڑھتے ہیں تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے پیچھے انسانی کہانیاں چھپی ہیں، وہ ماں جو چیخی، وہ بچہ جو خاموش ہوا، وہ نوجوان جس نے خوابوں کے ساتھ جان دی۔ ہمیں ان سب کو یاد رکھنا ہے، کیونکہ تاریخ بھولنے والوں کو ہمیشہ دہراتی ہے۔ یومِ شہداء جموں اس بات کی یاد دہانی ہے کہ قربانی وقت کے ساتھ مٹتی نہیں، بلکہ ایمان کی طرح نسلوں میں بہتی ہے۔ یہ دن ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں ان روحوں کا قرض چکانا ہے جنہوں نے آزادی کے خواب کے لیے اپنے خون سے زمین رنگی۔ ہمیں ان کی یاد کو زندہ رکھنا ہے، ان کی داستانوں کو سننا ہے، اور یہ یقین دہانی کرانی ہے کہ انسانیت کی حفاظت ہی سب سے بڑی عبادت ہے۔
آج اگر ہم خاموش رہیں، تو ان شہیدوں کی روحیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ ہمیں پھر سے اس جذبے کو جگانا ہوگا جو 1947ء میں ان مظلوموں کے دلوں میں زندہ تھا۔ کشمیر کا ہر قطرہ لہو یہ کہتا ہے کہ ’’میرا وجود پاکستان سے ہے، میری امید ایمان سے ہے، اور میری منزل آزادی ہے۔‘‘ یہ دن ان شہیدوں کے نام ہے جنہوں نے اپنی جانیں دے کر آزادی کے چراغ کو روشن رکھا۔ یہ دن ان گمنام قبروں کے نام ہے جن کے کتبے بھی مٹ چکے مگر ان کی قربانیوں کی خوشبو آج بھی وادیوں میں بستی ہے۔ یہ دن ان معصوم بچوں کے نام ہے جنہوں نے اپنی ماں کی بانہوں میں آخری سانس لی مگر لبوں پر پاکستان کا نعرہ تھا۔ یومِ شہدائے جموں صرف ماضی کی یاد نہیں، یہ مستقبل کا عہد ہے۔