شہزاد منیر احمد
برطانوی سامراج کس قدر چالاک اور سازشی ذہن کا مالک ہے اس کا اندازہ اس تاریخی سچائی سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے چھوٹی سطح کے تاجر، سوداگر اور کاروباری لوگ( ایسٹ انڈیا کمپنی اور لارڈ کلائیو) ہندوستان ( برصغیر ) میں مرچ مصالحہ جات کی خریداری کے لئے آنے والے تھوڑے ہی عرصے میں پورے ہندوستان کے حکمران بن بیٹھے ۔ ہندستان ، جو اس وقت دنیا کی پیداوار میں 27فیصد کماتا اور سب سے آگے ہونے کی وجہ سے ’’ سونے کی چڑیا‘‘ کہلاتا تھا ، انگریزوں نے ہندوستانیوں کی تعلیم ،مذہب، زبان اور ثقافت کا حلیہ بگاڑ کر ہندستان کے عوام کو بے توقیر اور ان کی زندگی اس طرح زبوں حالی میں لاکھڑی کی کہ شملہ میں اپنے رائل کلب کے سامنے یہ بورڈ نصب کر رکھا ۔ “No Dogs, No Indians”

انسانی مزاج میں تحقیر کو برداشت کرنے کی ایک حد ہوتی ہے۔ ہندوستان کے عوام نے انگریزوں کے جابرانہ تسلط اور ظالمانہ نظام حکومت کے خلاف تحریک شروع کر دی ، جس میں ہندو ، سکھ ،عیسائی ، پارسی اور مسلمان سب جوش و خروش سے باقاعدہ شامل ہوئے۔کہیں سے نعرہ لگایا جاتا QUIT INDIA ’’ہندوستان چھوڑ دو ‘‘ اور کہیں سے آواز آتی ، ’’ بنا کے رہیں گے پاکستان ‘‘،’’ لے کے رہیں گے پاکستان ‘‘ ۔ہندوستان میں چونکہ نظریاتی حریف جماعتیں صرف دو تھیں۔ ایک کانگریس ،جسے ہندو زیادہ ہی پسند اور اپنی جماعت سمجھتے تھے اور دوسرے مسلم لیگ ،جو نام سے لگتا ہے کہ مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم تھی ۔ کانگریس کی قیادت آل انڈیا کانگریس کے گاندھی اور نہرو کرتے تھے ، جب کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی سیاسی قیاد ت محمد علی جناح کرتےتھے۔ جناح صاحب انگلستان سے بیرسٹری کی سند لے کر آئے ہوئے ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ محمد علی جناح کو معلوم تھا کہ انقلابی تحریک چلانا کوئی معمولی کام نہیں ہوتا، کیوں کہ یہ ریاست میں مروجہ ، یعنی جاری نظام حکومت اور حکومتی پالیسیوں کے خلاف بولنا اور عام آدمی تک آواز پہنچانا ہوتی ہے جس کے لئے بہت سارے وسائل درکار ہوتے ہیں۔ مگر انہوں نے اللہ کل شئی ءِِقدیر ہے،اللہ پر مکمل بھروسہ کر کے اس تحریک کو تن تنہا شروع کر دیا ۔ پھر کیا تھا،’’لوگ ملتے گئے کارواں بنتا گیا حکومت وقت ایسے انقلابی پروگرام یا تحریک کو ختم کرنے کے ہر طرح کے غیر اخلاقی غیر قانونی اور ظالمانہ و وحشیانہ حربوں تک استعمال کر نے میں ذرا شرم محسوس نہیں کرتیں۔۔ بالکل ایسا ہی انگریزوں کا ظالمانہ سلوک اس’’ تحریک آزادی ہندوستان ‘‘ کے قائدین کے ساتھ آزمایا گیا ۔ آئے روز کے ظالمانہ پولیس ایکشنز کے علاوہ، جلیانوالہ میں ایک جلسہ عام ، جس میں تقریباً 40000کے قریب لوگ تھے، میں جنرل ڈائر کا ہندوستانی عوام پر تاریخی قتل عام کا وہ حکم سر فہرست ہے جس میں اس نے 90 فوجیوں کی مدد سے 1000 سے زیادہ لوگ براہ راست فائرنگ سے قتل کروائے ، ہزاروں زخمیوں کو زمین پر تڑپ تڑپ کر جان دیتے دیکھا گیا۔مؤرخین نے اس قتل عام پر یوں تبصرے کئے کہ جس طرح جنگ پلاسی ہندوستان پر انگریزوں کے قبضہ کی ضمانت بنا تھا ، جلیانوالہ جلسے میں 13 اپریل 1919 کو ہندوستانی عوام کا قتل عام بھی ہندوستان سے انگریزوں کے نکل بھاگنے کا اعلان ثابت ہوا ۔انگریزی حکومت نے ہر طریقہ ، گر ، حربہ اور طرح طرح کی پر کشش پیشکش بھی کیں مگر مسلمان کسی طرح بھی اپنے مطالبہ ، ’’لے کے رہیں گے پاکستان‘‘سے دستبردار نہ ہوئے ۔ البتہ ہندوؤں کو وہ اپنے شیشے میں اتارنے میں کامیاب ہو گئے۔ مگر مسلمان ، محمد علی جناح کی قیادت میں کسی طرح بھی اپنے مطالبہ الگ آزاد وطن سے پیچھے نہ ہٹے۔ اور آخر کار اللہ تعالیٰ کے کرم سے قائد اعظم آزاد ریاست خدا داد پاکستان عالم وجود میں لانے میں کامیاب ہو گئے ۔تحریک آزادی پاکستان پر محمد علی جناح کے استقلال ، محنت ، وکالت اور ثابت قدمی پر دنیا بول اٹھی ، کہ محمد علی جناح جیسا اصول پرست اور نظریاتی لیڈر صدیوں میں ہی کہیں پیدا ہوتا ہے۔ امریکی پروفیسر اسٹینلے ولپرٹ نے لکھا ’’اس وقت عالم اسلام کے لیے جو اپنے انتہائی پر آشوب اور خطرناک دور سے گذر رہا ہے ، ایک ایسے مجاہد اسلام کی ضرورت ہے جو حضرت قائد اعظم محمد علی جناح اور صلاح الدین ایوبیؒ دونوں کے اوصاف اور خوبیوں کا مرکب ہو۔پھر کہیں جاکر ملت اسلامیہ کی نشاط ثانیہ کا دور آئے گا‘‘۔نشاط ثانیہ کیا ہے ، نشاط ثانیہ ، کسی بھی قوم کی طرف سے اپنی، کھوئی ہوئی ، گم گشتہ، خوش حالی ،حکمرانیوں کے دور دورہ کو پھر سے حاصل کرنے کی سیاسی جد وجہد کرنے کا نام ہے۔ہندوستان کی معروف و مشہور ادیبہ،شاعرہ اور سرکردہ سیاسی رہنما سروجنی نائیڈو نے محمد علی جناح کی شفاف ، راست گوئی اور برتر سیاسی قیادت کو اس طرح خراج تحسین پیش کیا ، ’’ وہ نہ بکنے والی شخصیت تھے‘‘ ( بقول سروجنی نائیڈو گاندھی بک سکتا ہے،نہرو بک سکتا ہے، میں بک سکتی ہوں ، جناح نہیں بک سکتا ۔ وہ پارلیمنٹیرین تھے، وہ کسی بھی رنگ میں آمریت کے قائل نہ تھے۔ انہوں نے ملک پاکستان عسکری میدان میں نہیں بلکہ جمہوری طرز و طریقِ سے حاصل کیا)۔
3 جون 1947 کے اعلان آزادی ہند کے بعد ،مولانا ابو الکلام آزادؒ نے سید بدرالدجی سے رابط کر کے قائد اعظم محمد علی جناح سے ملاقات کی۔ تفصیل سے باتیں کیں اور قائد اعظم سے کہا۔ ’’آپ نے 3 جون کے پلان کو منظور کر کے ہندوستانی مسلمانوں کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ قائد اعظم نے ان سے پوچھا کہ تین حصوں میں کیسے۔‘‘مولانا نے کہا۔’’ ہندوستان ، مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان ۔ بنگالی مسلمان زبان اور کلچر کی بنیاد پر پاکستان کا زیادہ دنوں تک ساتھ نہیں دیں سکیں گے اور ایک وقت آئے گا جب وہ پاکستان سے الگ ہو جائیں گے‘‘۔پھر قائد اعظم نے مولانا سے فرمایا, ’’مولانا میں نے ہندوستانی مسلمانوں کو ان کے تحفظ کے لئے ایک قلعہ فراہم کر دیا ہے، تا کہ وہ یہاں رہ کر اپنے عظیم ماضی کا احیاء کر کے اپنے شاندار مستقبل کی تعمیر کر سکیں ۔اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے تو یہ ان کی اپنی بد نصیبی ہوگی۔ میں نے اپنا کام کر دیاہے میرا مشن اب پورا ہو چکا۔‘‘قائد اعظم کے یہ الفاظ سن کر مولانا اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کو اپنے سینے سے لگا لیا ۔ قائد اعظم سے اس ملاقات کے بعد ہی مولانا آزاد کے خیالات میں تبدیلی آئی ۔ جب کوئی ان سے پاکستان کے بارے مشورہ طلب کرتا تو وہ ان کو یہی کہا کرتے، ’’ جو کچھ ہونا تھا ہو چکا۔پاکستان قائم ہو چکاہے۔ اب آپ وہاں چلے جائیں ، اور اس ملک کی خدمت اور تعمیر کریں‘‘۔ 16 اگست 1947 کو پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس کی افتتاحی تقریب میں قائد اعظم محمد علی جناح نے قوم کے نام پیغام میں فرمایا ، ’’ بے پایاں مسرت اور احساس کے جذبات کے ساتھ میں آپ کو تہنیت کا پیغام دیتا ہوں ۔ 14 اگست آزاد اور خودمختار پاکستان کے قیام کا دن ہے۔ یہ مسلم قوم کی منزل مقصود کی علامت ہے۔ نئی مملکت کی تخلیق کی وجہ سے شہریوں پر زبردست ذمہ داری آن پڑی ہے۔انہیں یہ موقع ملا ہے کہ وہ دنیا کو یہ دکھا سکیں کہ قوم جو بہت سے عناصر پر مشتمل ہے ، کس طرح امن و آشتی کے ساتھ رہ سکتی ہے۔ اور ذات پات اور عقیدے کی تمیز کیے بغیر سارے شہریوں کی بہتری کے لیے کام کر سکتی ہے۔آج جمعتہ المبارک ہے رمضان المبارک کا آخری جمعہ ہے، مسرت و انبساط کا دن ہم سب کے لیے اور اس وسیع و عریض برعظیم اور دنیاکے ہر گوشہ میں جہاں بھی مسلمان ہوں تمام مساجد میں اجتماعات ، رب ذوالجلال کے حضور بڑی عجز و انکساری سے سجدہ ریز ہو جائیں اور اس کی نوازش پیہم اور فیاضی کا شکر ادا کریں اور پاکستان کو ایک عظیم ملک اور خود کو اس کے شایان شان شہری بنانے کے کام میں اس قادر مطلق کی ہدایت اور اعانت طلب کریں ‘‘۔
قیام پاکستان کے فورآ بعد پہلی عید الفطر کے موقع پر 18 اگست 1947 کو بابائے قوم محمد علی جناح نے فرمایا ،’’آزاد اور خود مختار پاکستان کے قیام کے بعد یہ ہماری پہلی عید ہے۔تمام عالم اسلام میں یہ یوم مسرت ہماری قومی مملکت کے قیام کے فورآ بعد نہایت مناسب طور پر آیا ہے۔ لہذٰا یہ ہم سب کے لیے خصوصی اہمیت اور مسرت کا حامل ہے ۔ میں اس مبارک موقع پر تمام مسلمانوں کو خواہ وہ کسی بھی خطہ ارض پر ہوں ، پر مسرت عید کا ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں ۔ مجھے امید ہے کہ یہ عید خوشحالی کا نیا باب وا کرے گی اور اسلامی ثقافت اور تصورات کے احیاء کی جانب پیش قدمی کا آغاز کرے گی ۔میں خدائے قادر و قیوم کے حضور دست بہ دعا ہوں کہ وہ ہم سب کو اپنے ماضی اور تابناک تاریخ کا اہل بنا دے اور ہمیں اتنی طاقت عطا فرمائے کہ ہم پاکستان کو حقیقی معنوں میں جملہ اقوام عالم میں ایک عظیم قوم بنا سکیں ۔ بلاشبہ ہم نے پاکستان حاصل کرلیا ہے ۔لیکن یہ تو منزل کی طرف ہمارے سفر کا آغاز ہے۔‘‘
24 اکتوبر1947 کی عید الاضحیٰ پاکستان میں پہلی عید تھی ۔ قوم کو اس موقع پر قائد اعظم محمد علی جناح نے پیغام دیا ’’خدا جن لوگوں سے محبت کرتا ہے وہ اکثر ان کو امتحان اور آزمائش میں بھی ڈال دیتا ہے۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نےکہا کہ۔جو شے تجھ کو سب سے زیادہ عزیز ہے اس کی تم میرے لیے قربانی دو۔حضرت ابراھیم علیہ السلام نے خدا کے حکم کے سامنے سر تسلیم کرتے ہوئے اپنے عزیز اور پیارے بیٹے کی قربانی پیش کر دی۔آج ہمارا رب ، پاکستان اور ہندوستان کے مسلمانوں سے امتحان لے رہا ہے ۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ہم سے بہت بڑی قربانیاں طلب کی ہیں۔ ہماری نوزائیدہ مملکت پاکستان دشمنوں کے لگائے گئے زخموں سے چور چور ہے‘‘۔چونکہ ہندوستان اور پاکستان مخالف قوتیں مسلسل یہ پروپیگنڈاکر رہی تھیں۔کہ پاکستان کا بن جانا غیری فطری اور ایک عارضی انتظامی فیصلہ ہے ۔ خود مختار آزاد پاکستان کا قائم رہنا مشکل ہے۔ اس لیے محمد علی جناح نے اس کا جراتمندانہ اور دو ٹوک جواب دیا تھا۔25 اکتوبر 1947 عید الاضحیٰ کے دوسرے دن قائد اعظم نے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا ’’ میں اس بات کو بالکل واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کسی صورت میں ہتھیار نہیں ڈالے گا ۔ اور کسی صورت میں ایک ’مشترکہ مرکز‘ کے ساتھ دونوں خود مختار مملکتوں کے آئینی اتحاد پر رضامند نہیں ہوگا ۔ پاکستان رہنے کے لئے بنا ہے اور قائم رہے گا۔‘‘ 30 اکتوبر 1947 کو قائد اعظم نے ریڈیو پاکستان لاہور اسٹیشن سے اپنی نشری تقریر میں فرمایا ، ’’ بلا شبہ ہم نے پاکستان حاصل کر لیا ہے اور وہ بھی بغیر کسی خونریز جنگ کے ، عملاً اخلاقاً اور ذہنی قوت کے بل بوتے پر اور پر امن طریقے سے اور قلم کی طاقت کے ذریعے جو شمشیر کی طاقت سے کسی طرح کم تر نہیں ہوتی ۔ اس طرح ہمارا درست مؤقف کامرانی سے ہم کنار ہوا ۔اب پاکستان ایک نوشتہ تقدیر ہے اور اسے کبھی مٹایا نہیں جا سکے گا ۔
جناب شہزاد منیر احمد(گروپ کیپٹن ریٹائرڈ)راولپنڈی / اسلام آباد کے معروف ادیب، شاعر،مصنف اور کالم نگار ہیں،کشمیر الیوم کے لیے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں







