سید عمر اویس گردیزی
متین فکریؒ مرحوم : مودودیؒ کی حکمت کا وارث، سیدعلی گیلانیؒ کی غیرت کا امین
قلمی جہاد کے اس شہسوار کی داستان جو حرف کو حریت بنا گیا
متین فکریؒ دردکشمیر کے اوراق میں ابدی طور پر ثبت ہونے والانام تھا
اگر کوئی پوچھے کہ متین فکریؒ کی تحریروں کا سب سے مرکزی موضوع کیا تھا، تو ایک ہی جواب دیا جاسکتا ہے۔۔۔کشمیر
فضائے امکان کی ان بے کراں وادیوں میں، جہاں صدیوں کے الم کی دھند آسمان کے رخسار پر پڑی رہتی ہے، اور جہاں وقت کے شکستہ اوراق پر شہیدوں کے لہو نے اپنے رنگ دوام کی مہریں ثبت کر رکھی ہیں، وہاں ایک ایسی صدا بسی ہوئی ہے جو نہ مکمل خاموشی ہے اور نہ پوری آواز، بس ایک لرزاں ارتعاش، جو تاریخ کے سینے میں چھپی ہوئی صبر آزماآزمائشوں کی زنجیروں کو جنبش دیتی رہتی ہے۔ یہ صدا، جسے نہ پہاڑ روک سکے، نہ دریا ڈبو سکے، اور نہ ہی کسی قوت کے سفاک چرچے اسے دھندلا سکے، دراصل اس قلم کی نوک سے پھوٹی ہے جو کشمیری مظلومیت کے آنسوؤں سے تر رہتی تھی، اور جس کے ہر لفظ میں جہاد کی سچّی تڑپ ایک مخفی آگ کی طرح دہکتی تھی۔ یہ آج کی میری تحریر، اس عہدِ شکستہ کی دہلیز پر کھڑی ہے جہاں قوموں کی تاریخیں اپنے سائے آپ سے جدا کر کے چل پڑتی ہیں۔ مگر اس وادیِ غم میں ایک ایسا چراغ بھی ہمیشہ جلتا رہا ہے جس کی لو نہ ہوا کی بدنیتی سے بجھی، نہ زمانوں کی بے رحم گردش سے لرزی۔ اس لو نے اپنی حرارت سے دلوں کو گرمایا، اور اپنی روشنی سے نسلوں کی بینائی بچائے رکھی۔ وہ لو کسی ہاتھ کی اسیر نہ تھی؛ وہ ایک فکر، ایک وجدان، ایک جذباتی امانت تھی، جو آزادی کی گونجتی وادیوں میں، صبر و ثبات کے اوراق پر حرفِ آخر کی صورت جھلملاتی رہی۔ یہ وہ روحیں ہوتی ہیں جن کے سینوں میں ابدی صداحریت اپنے آپ کو منقش کرتی ہے، جن کے قلموں میں وادی کشمیر کے مظلوموں کی سسکیاں روشنائی بن کر بہتی ہیں، اور جن کی فکر میں جہادِ زندہ کا وہ الاؤ دہکتا رہتا ہے جو بندوق سے نہیں، لفظ سے لڑتا ہے۔


جب صدیوں کا ظلم اپنے سیاہ پردے تانے بیٹھا ہو، جب پہاڑوں کے پیچھے چھپے ہوئے گاؤ ں میں ماؤں کی چیخیں تاریخ کے کوائف میں جذب ہونے سے انکار کر رہی ہوں، جب دریائے جہلم کے پانی میں شہیدوں کا لہو اپنی لکیریں کھینچ رہا ہو، اور جب سری نگر کی اداس شامیں گواہی دے رہی ہوں کہ جبر کی راتیں ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں، تب کہیں کسی کونے میں ایک ایسا قلم اٹھتا ہے جو خاموشیوں کو چیر کر وہ صدائیں پیدا کر دیتا ہے جنہیں گرنے میں صدیوں لگتی ہے۔ اسی قلم کا ایک قطرہ کبھی کبھی اس دنیا میں ایک ایسا آدمی تراشتا ہے جس کے حروف چنگاری، جس کے جملے اقبال کی صدیوں سے لپٹی ہوئی دعا، اور جس کے مضامین سید علی شاہ گیلانیؒ کی اذیت زدہ مگر پُر عزم نگاہوں کی بازگشت معلوم ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی تحریروں میں کشمیر کی کوکھ میں جلنے والے گھروں کا دھواں بھی شامل ہوتا ہے اور آزادی کے خواب دیکھنے والے نوجوانوں کی سانسیں بھی۔ ان کے قلم کے وار تلوار سے زیادہ کاری ہوتے ہیں۔ان کے الفاظ کی مار توپ کے دھماکے سے زیادہ گونجدار ہوتی ہے۔ ان کی تحریروں میں وہ آنسو پوشیدہ ہوتے ہیں جو کبھی ماں کی آنکھ سے گرتے ہیں، اور وہ آہیں پوشیدہ ہوتی ہیں جو کبھی کسی مظلوم باپ کی خاموش چیخ میں بدل جاتی ہیں۔


وقت کے سمندر نے بارہا دیکھا ہے کہ جب بندوقیں خاموش ہو جائیں، جب تحریکیں منتشر ہو جائیں، جب نسلیں بدل جائیں، تب بھی قلمی جہاد کی ایک تحریر زندہ رہتی ہے، کیونکہ وہ کاغذ پر نہیں لکھی جاتی، وہ دلوں کی نالیوں میں اتر کر انسان کی اجتماعی روح پر نقش ہو جاتی ہے۔ اور انہی گہرے، بے کراں اور صدیوں پھیلے ہوئے معانی کے پس منظر میں ہم ایک ایسے مردِ دانا کی یاد میں یہ ابتدائیہ رقم کر رہے ہیں، ایک ایسا کوہ دانش جس کی تحریروں سے میں بچپن سے روشنی کشید کرتا آیا، جس کے حرف میرے شعور کی تربیت کرتے رہے، جس کی تحریر میرا پہلا مکتبِ فکر تھی اور آخری سہارا بھی۔ وہی مرددانا، جس کے قلم میں کشمیر کی چیخیں گونجتی تھیں، جس کے دل میں جہادِ کشمیر کی حرارت سلگتی تھی، اور جس کا نام تاریخ نے متین فکری کے عنوان سے محفوظ کر رکھا تھا۔
زمانوں کے افق پر کچھ نام ایسے ابھرتے ہیں جن کے ڈوب جانے سے فقط ایک سایہ یا ایک شخص نہیں اٹھتا، بلکہ گویا فکر و دانش کی پوری کہکشاں ایک لمحے کو ٹھٹھک کر رہ جاتی ہے۔ لفظ اپنے وزن کھو بیٹھتے ہیں، سطریں سوگوار ہوجاتی ہیں، قرطاس کے رگ و پے میں ایک انجانا سا بوجھ اتر آتا ہے۔ متین فکریؒ کا وصال بھی انہی سانحات میں سے ایک ہے، وہ سانحہ جس نے نہ صرف صحافت کی دنیا میں خلا پیدا کیا، بلکہ ادبیات، فکریات، اور جہادِ کشمیر کی تحریری دنیا میں ایک ایسا رخنہ چھوڑ دیا جو شاید زمانوں تک پر نہیں ہوسکے گا۔ اسلام آباد کے H-11 قبرستان کی مٹی نے اگرچہ ان کے جسم کو تھام لیا، مگر تاریخ کے صفحات اس شخص کو کبھی سپردِ خزاں نہیں کرسکتے۔ ان کی نوکِ قلم کی حدت، ان کے دلِ دردمند کی دھڑکن، ان کی زبانِ حق گو کی سلاست، یہ سب کچھ آج بھی ہمارے اندر ایسی ہی زندگی کے ساتھ سانس لے رہا ہے جیسا ان کی حیات میں تھا۔ ان کی نمازِ جنازہ میں شریک ہر آنکھ، ہر لب، ہر دل، اس بات کا گواہ تھا کہ متین فکری کا جانا کسی فرد کا جانا نہیں تھا، وہ ایک عہد کا خاتمہ تھا، وہ ایک فکر کا مرقد تھا، وہ ایک کارواں کے سالار کا سفرِ آخرت پر روانہ ہونا تھا۔ صحافی، شاعر، ادیب، مفکر، تجزیہ کار، مجاہدِ قلم، وہ ہر روپ میں اپنے زمانے پر پوری طرح چھائے ہوئے تھے۔ ان کی فکری نسب کی شجریں دیکھی جائیں تو مرحوم متین فکریؒ مودودیؒ کی فکری سلطنت اور گیلانیؒ کے جہاد کے وارث تھے۔

متین فکریؒ کے فکری پس منظر کی بنیادیں محض صحافتی تجربے پر نہیں رکھی گئیں؛ بلکہ ان کی علمی شخصیت کے خدوخال سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی دانش گاہ میں تیار ہوئے۔ ان کے نزدیک مودودیؒ محض ایک مفکر یا مصلح نہ تھے، بلکہ وہ ایک ایسا فکری مینار تھے جو صدیوں تک آنے والے اذہان کے لیے روشنی کا ذریعہ رہیں گے۔ متین فکریؒ کی تحریروں میں سیدمودودیؒ کی تفسیر، ان کا استدلال، ان کی تہذیبی سچائیاں، ان کا فکری وقار، یہ سب کچھ بعینہٖ جھلکتا تھا۔ اسی طرح سید علی شاہ گیلانیؒ کے ساتھ ان کی قربت نے ان کے دل کو کشمیر کے آنسووں کے ساتھ یوں جوڑ دیا کہ پھر ان کی تحریریں کشمیر کے دکھ کی شہادت بن گئیں۔ وہ محض لکھتے نہ تھے،وہ کشمیر کے ہر جری مجاہد کے دل کی دھڑکن کو کاغذ پر منتقل کرتے تھے۔ وہ کشمیر کے حریت پسندوں کے خوابوں کو لفظ کی روشنی دیتے تھے۔ وہ کشمیر کے لہو سے لکھی گئی تاریخ کو آئندہ نسلوں تک پہنچانے والے قلمی سپاہی تھے۔ یہاں، اس سرزمینِ کرب و کوہسار میں، جہاں بچّوں کی ہچکیوں میں سسکیوں کی تاریخ لکھی جاتی ہے، اور ماؤں کے آنچلوں میں صبر کی چٹانیں پلتی ہیں، ایک ایسے قلم کی شہرت بھی سانس لیتی رہی ہے جس نے جہادِ کشمیر کو محض ایک نعرہ نہیں، بلکہ ایک فکری ذمہ داری، ایک تہذیبی قرض اور ایک روحانی فرض کے طور پر پیش کیا۔ اُس قلم نے کوئی تلوار نہیں چلائی؛ مگر اس کی سطریں تلوار کی دھار سے زیادہ کربناک، نیزے کی نوک سے زیادہ بے باک، اور کسی بھی سلطانی بیانیے سے زیادہ سچی تھیں۔
یوں کہا جاسکتا ہے کہ متین فکریؒ کی شخصیت دو عظیم فکری شخصیات کے دو گران قدر عطیات پر قائم تھی۔ سید ابو الاعلی مودودیؒ کی عقل اور گیلانیؒ کا عشق۔ متین فکریؒ کی زندگی کا آغاز ایسا تھا کہ انہوں نے صحافت کی خاک میں وہ مشعل روشن کی جس نے کئی نسلوں کو راہ دکھائی۔ متین فکریؒ کی صحافت کا آغاز ہفت روزہ ایشیا میں نائب مدیر کی حیثیت سے ہوا۔ یہ محض ایک پیشہ ورانہ منصب نہ تھا، بلکہ ان کے فکری سفر کا وہ پہلا دروازہ تھا جہاں سے ان کی شخصیت کے کئی جہان کھلے۔ تقریباً دس سال تک وہ اس جریدے سے وابستہ رہے، اور انہی سالوں نے ان کے اندر وہ حرارت، وہ مشاہدہ، وہ فہم زمانہ پیدا کیا جو بعد میں ان کے پورے صحافتی سفر کا سرمایہ بنا۔ پھر وہ وقت آیا جب وہ روزنامہ جنگ راولپنڈی کے ساتھ منسلک ہوئے، وہ ادارہ جو پاکستان کی صحافت کا سب سے بڑا مدرسہ بھی ہے اور امتحان گاہ بھی۔
جنگ میں انہوں نے صرف خبر نہیں لکھی، انہوں نے خبر کو معنی دیا، انہوں نے تجزیے کو روح دی، انہوں نے کالم کو شعور دیا۔ نیوز ایڈیٹر کی حیثیت سے ان کی ذمہ داری محض صفحات کی ترتیب تک محدود نہ تھی۔ وہ ادارتی پہیے کے وہ ستون تھے جن پر پورا ادارہ کھڑا تھا۔ ان کا فیصلہ آخری فیصلہ ہوتا تھا، ان کی رائے سب سے معتبر، ان کا مشاہدہ سب سے گہرا، ان کا تجزیہ سب سے وزنی۔ روزنامہ جنگ سے ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی محبت اور نسبت ماہنامہ کشمیر الیوم کی دھڑکن میں شامل رہی۔ ان کے کالم، ان کے مضامین، ان کے تحقیقی بیانات، یہ سب کچھ اس رسالے کے علمی قد کا حصہ بن گئے۔ ساتھ ہی ساتھ جسارت، جہاد کشمیر اور کئی دیگر ادبی و فکری جرائد میں بھی وہ مسلسل لکھتے رہے۔ ان کا قلم کبھی رکا نہیں۔ ان کی سوچ کبھی کمزور نہیں پڑی۔ وہ آخری سانس تک قلم کے مجاہد رہے۔ کشمیر کا موضوع، وہاں کے ظلم و ستم پر قلمی جہاد ان کی تحریروں کا دل، ان کی فکر کی شہ رگ، ان کی زندگی کی اذان تھا، اگر کوئی پوچھے کہ متین فکریؒ کی تحریروں کا سب سے مرکزی موضوع کیا تھا، تو ایک ہی جواب دیا جاسکتا ہے۔۔۔کشمیر، تحریک آزادی کشمیر ان کے لیے ایک سیاسی مسئلہ نہیں تھا۔ یہ ان کے لیے ایک دینی ذمہ داری تھی۔ ایک اخلاقی فریضہ تھا۔ ایک تہذیبی جنگ تھی۔ ایک انسانی کارواں تھا۔ ان کی تحریروں میں کشمیر کا دکھ صرف دکھ نہیں ہوتا تھا، وہ ایک طوفان ہوتا تھا، ایک للکار ہوتی تھی، ایک صدائے احتجاج ہوتی تھی، ایک نوحۂ عصر ہوتا تھا، ایک تجدیدِ عہد ہوتی تھی۔ وہ کشمیر پر لکھ کر محض قلم نہیں چلاتے تھے، وہ ہر سطر میں اپنا دل رکھ دیتے تھے۔ ان کے نزدیک کشمیر ایک جغرافیائی تنازع نہیں، بلکہ امت کی غیرت کا آخری قلعہ تھا۔ ان کی تحریریں زندہ جہاد کی مانند تھیں۔ ان میں وہی حرارت تھی، وہی غیرت، وہی صدق، وہی عزم۔ یہ کہنا کہ متین فکریؒ کو فکری آگاہی میں ایک خاص مقام حاصل تھا، درحقیقت ان کے مقام کا ایک ابتدائی تعارف ہے۔
وہ محض دانشور نہ تھے، وہ صاحب نظر تھے۔ زمانے کے دھاروں کو پہچاننے والے، تہذیبوں کے تصادم کو سمجھنے والے، عالمی سیاست کے باطن کو پڑھنے والے، اور معاشرتی تضادات کے اندر چھپی حقیقتیں کھوج نکالنے والے۔ ان کے نزدیک صحافت صرف رپورٹنگ کا نام نہیں تھی، بلکہ یہ ایک تہذیبی مشن تھی۔ ان کے نزدیک تحریر صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں تھی، بلکہ یہ ایک امانت تھی۔ یہاں میںیہ اعتراف کئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا کہ میری صحافتی، فکری، اور ادبی زندگی پر اگر کسی کا سب سے گہرا اثر رہا ہے، تو وہ متین فکریؒ جیسے عظیم ادیبوں کی تحریریں ہیں۔ میں نے اپنی بچپن کی پہلی شعوری قرأت جن مصنفین و ادیبوں کے کالموں سے شروع کی، ان میں ایک نام متین فکری کا بھی تھا، میں نے اخبار کی دنیا میں پہلا ذوق انہی عظیم شخصیات کے الفاظ سے چکھا۔ میں نے ادب میں پہلی بار سچائی کی خوشبو انہی کے مضامین سے سونگھی۔ میں نے کشمیر کا درد پہلی بار انہی کے اندازِ بیان سے محسوس کیا۔ ان کی تحریریں میرے لیے محض معلومات کا ذریعہ نہ تھیں، وہ میرے اندر ایک نئی دنیا آباد کرنے والا دروازہ تھیں۔ میں آج بھی جب کوئی ادبی جملہ لکھتا ہوں، تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں وہی عظیم استاد میرے قلم کو تھام کر راستہ دکھا رہا ہے۔ ان کا شمار ہمیشہ میرے سب سے پسندیدہ مصنفین، کالم نگاروں اور اہلِ قلم میں ہوتا رہا۔ ان کا جملہ، ان کی تراکیب، ان کا فکری وزن، یہ سب کچھ میں نے اپنے لیے قابلِ تقلید نمونہ سمجھا۔ تحریروں کا اسلوب ایسا تھا کہ جس میں کلاسیکی نزاکت بھی تھی اور جہادی حرارت بھی، ان کی زبان میں ایک عجیب امتزاج تھا، کلاسیکی اردو کی فصاحت بھی، قدیم محاوروں کی مہک بھی، عصر حاضر کی تیزی بھی، اور تحریکی لہجے کی صلابت بھی۔ ان کے جملے سیدھے دل پر اترتے تھے۔ ان کی سطریں قاری کے اندر ایک طوفان بپا کر دیتی تھیں۔ ان کا ہر لفظ ایک صدی کے برابر ہوتا تھا۔ وہ لکھتے نہیں تھے، وہ تاریخ رقم کرتے تھے۔


ان کی عظمت صرف قلم تک محدود نہ تھی۔ وہ انسان بھی اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ نرم مزاج، بردبار، شریف النفس، دردمند، مشفق۔ بڑے سے بڑا اختلاف بھی ان کے چہرے کی مسکراہٹ کو بجھا نہیں سکتا تھا۔ زندگی بھر وہ سادگی میں رہے۔ دکھ، درد، اور جدوجہد ان کا سرمایہ تھا۔ انہیں عہدوں کی چمک نے کبھی متاثر نہیں کیا۔ انہیں جھوٹی تعریفوں نے کبھی اپنی حدود سے باہر نہیں کیا۔ وہ ایک درویش صحافی تھے، درد کو اوڑھ کر جینے والے۔ کشمیر کی تاریخ میں جن اہلِ قلم نے اس تحریک کو نظریاتی اور ادبی بنیاد فراہم کی، ان میں متین فکریؒ کا نام ہمیشہ سرفہرست رہے گا۔ وہ اس دور میں بھی لکھتے رہے جب لکھنا جرم سمجھا جاتا تھا۔ وہ اس وقت بھی آواز بنتے رہے جب آواز کو خاموش رکھنا ہی
دانش مندی شمار ہوتا تھا۔ ان کی تحریریں آج بھی تحریکِ آزادی کشمیر کی فکری اساس ہیں، کل بھی رہیں گی، آئندہ نسلوں تک رہیں گی۔ ان کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا، وہ ہمیشہ رہے گا، ادب کی دنیا ایسے لوگوں سے آباد رہتی ہے، لیکن جب وہ اٹھ جاتے ہیں تو صدیوں تک ان کی جگہ خالی رہتی ہے۔ متین فکریؒ کی رحلت کا خلا، صحافت میں بھی، ادیبوں میں بھی، فکر کے میدان میں بھی، اور کشمیر کے محاذ پر بھی، کبھی پر نہیں ہوسکے گا۔
متین فکریؒ ایک عہد کا نام ہیں، اور عہد کبھی مر نہیں جاتے، مٹی ان کے جسم کو تھام سکتی ہے۔آج جب کہ وہ صاحب بینش اپنی خامہ فرسائی کی آخری سطر لکھ کر عدم کی خاموش وادیوں میں اتر چکے ہیں، تو لفظ بھی اپنے آپ کو یتیم سا محسوس کرتے ہیں اور معانی بھی اجڑتے ہوئے آستانوں کی طرح سنسان دکھائی دیتے ہیں،مگر اس کے باوجود یہ یقین ہمیں سہارا دیتا ہے کہ ان کے بصیرت افروز افکار اور حرفِ صداقت کی وہ شمعیں، جو انہوں نے نصف صدی تک ملت مظلومہ کی رہنمائی کیلئے روشن رکھیں، تا ابد بجھنے والی نہیں، بلکہ نسلوں کے اذہان میں ایک ابدی منارۂ ہدایت کی طرح فروزاں رہیں گی۔ ربِ کریم سے یہ دعا ہے کہ اس مردِحر کے مرقد کو اپنی رحمتوں کی شبنم سے معطر رکھے، اسے جنت الفردوس کے باغات میں وہ رفعتیں عطا فرمائے جہاںاہل اخلاص کو قرار ملتا ہے، اور ہم اہل پسماندہ کو توفیق دے کہ ان کے چھوڑے ہوئے فکری ورثے کو صبر، حکمت اور جہادقلم کی اسی روشنی کے ساتھ آگے بڑھا سکیںبےشک ایسے چراغ مٹی میں سو نہیں جاتے، وہ زمانوں کے سینوں میں دھڑکتے رہتے ہیں۔






