شیخ محمد امین
قبلہ متین فکریؒ… یہ وہ نام ہے جس سے میرا رشتہ الفت اور عقیدت کا تھا۔ یہ رشتہ آج نہیں بلکہ دہائیوں پر محیط ایک طویل سفر کا ہمسفر تھا۔ 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والے حالات حاضرہ کے تبصرے میری روزانہ کی روحانی غذا ہوا کرتے تھے۔ رات 9 بجے خبروں کے بعد جب سنانے والا آخر میں مودبانہ لہجے میں کہتا،تبصرہ آپ نے سنا ،تحریر… متین فکری، تو دل کے کسی گوشے میں ایک حرارت، ایک انسیت جاگ اٹھتی۔ اسی وقت سے یہ خواہش دل میں مچلتی کہ کاش کبھی اس صاحب قلم سے روبرو ہمکلام ہونے کا شرف حاصل ہوجائے ۔مجھے کیا معلوم تھا کہ میری یہ خواہش ایک بڑے امتحان اور آزمائش کو دعوت دینے کے مترادف تھی ۔ایک ا یسی خواہش جس کی تکمیل کا وقت آنے والا تھا۔2000کاوہ لمحہ جس نے زندگی بدل دی ۔مجھےمیرے وطن، جنت نظیر کشمیر کو چھوڑ کر پاکستان میں ایک مہاجر کی حیثیت سے آنا اور رہنا پڑا ۔چونکہ قلم اور کاغذ سے ہی واسطہ رہاتھا یہاں بھی اسی قلم اور کاغذکے ساتھ تعلق رکھا۔کشمیر میڈیا سنٹر کے سربراہ کی حیثیت سے کام ملا۔ہم ایک نئے ماہنامے “کشمیر الیوم” کے اجرا کا فیصلہ کر چکے تھے اور ہمیں ایک ایسے ماہر، دیانتدار اور درددل رکھنے والے صحافی کی ضرورت تھی جوتحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے باخبر بھی ہو اور اس جدوجہد کے ساتھ قلبی وابستگی بھی رکھتا ہو۔

جولائی2003 میں اچانک مرحوم پروفیسر شال صاحب کے ساتھ ایک بزرگ ہمارے میڈیا آفس تشریف لائے۔ شال صاحب نے ان بزرگ کاتعارف کرایا کہ یہ متین فکری صاحب ہیں،پاکستان کے سب سے بڑے اخبار جنگ سے بحیثیت نیوز ایڈیٹر ریٹائر ہو گئے ہیں۔یہ جنگ کی ادارتی ٹیم میں بھی شامل تھےؒ۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہایہ وہی شخصیت ہیں جنہیں دیکھنے اور ملنے کی آرزو برسوں سے دل میں رکھے بیٹھا تھا، اور آج اللہ نے اسے یوں پورا کر دیا۔میری آنکھیں فرط جذبات سے نم ہوگئیں۔متین صاحب نے گلے لگایا ،ماتھے پر بوسہ دیا ۔محبت و انسیت کی ہماری کہانی یہاں سے باقاعدہ شروع ہوئی۔

2004 میں ماہنامہ ’’کشمیر الیوم‘‘ کا باقاعدہ آغاز ہوا۔متین فکریؒ اس کے بانی مدیر بنے اور اگلے6 سال تک اس مجلے کو اپنی محنت، دیانت، علم اور تجربے سے ایک ایسا وقار عطا کیا جس کی مثال مشکل سے ملے گی۔ہر اداریہ ایک شاہکار ہوتا تھا۔ وہ لکھتے تو لگتا تھا کہ جیسے خون جگر لکھی ہوئی تحریریں ہیں۔ پورے پاکستان سے بڑے بڑے صحافی ان سے ملنے کیلئے آتے،اس طرح نہ صرف کشمیر کے حالات سے باخبر ہوتے بلکہ پھر وہ خود بھی ہمارے میڈیا سنٹر اور ماہنامہ کشمیر الیوم کا حصہ بنتے گئے ۔عمر ڈھلنے اور صحت کے مسائل کے باوجود وہ کبھی تھکتے نہ تھے۔ تاہم جب ان ہیں اسلام آباد سے کہوٹہ رہائش کے سلسلے میں اپنے افراد خانہ کے ساتھ منتقل ہونا پڑا تو وہ ادارتی ذمہ داریوں سے الگ ہوگئے، مگر الحمد للہ تعلق ٹوٹا نہیں۔وہ لکھتے رہے، مشورے دیتے رہے، اور ہر لمحہ ہماری رہنمائی کرتے رہے۔



جناب متین فکری صرف صحافی نہیں تھےبلکہ مصنف، شاعر، ادیب، مفکر، دانشور، محقق بھی تھے۔ بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ وہ عاشق رسول ﷺ تھے۔پیغمبر آخر الزماںﷺ کا اسم مبارک سنتے ہی ان کی آنکھیں نم ہوجاتی تھیں ۔وہ سید مودودیؒ کو اپنا استاد اور امام سمجھتے تھے۔سید علی گیلانیؒ سے بھی ان کی محبت بے مثال تھی ، ایسی محبت کہ گیلانی صاحب سے جب فون پر بات کرتےتو جوش محبت میں کئی بار ان کی آنکھیں تر ہوجاتیں۔کشمیری مجاہدین کے لیے باپ جیسا دل رکھتے تھے۔ جب بھی کسی نوجوان کی شہادت کی خبر آتی، وہ بچوں کی طرح رو پڑتے۔ان کا وجود ہی ایک مسلسل درد، محبت اور اخلاص کا پیکر تھا۔میرا ان سے تعلق صرف صحافتی یا فکری نہیں تھا۔وہ میرے گھر کے بزرگ تھے، میرے بچوں کے لیے دادا اور ناناکی سی شفقت رکھنے والے مہربان تھے۔سال میں ایک دو بار ضرور ہمارے گھر آتے، بچوں کو پیار کرتے، دعائیں دیتے،انہیں گود میں بٹھاتے، سر پر ہاتھ پھیرتے، دعائیں دیتے تھے۔ آج جب وہ چلے گئے تو میرے بچوں نے دادا اور نانا کھو دیا، میں نے اپنا استاد اور مربی کھو دیا، اور تحریکِ آزادی کشمیر نے اپنا سب سے سچا، سب سے مخلص اور سب سے درد مند قلمکار کھو دیا۔۔ہاں سو فیصد درست کہہ رہا ہوں کہ متین فکریؒ کے جانے سے تحریک آزادی کشمیر ایک ایسے سچے اور مخلص رہنما سے محروم ہوگئی جس نے اپنی پوری زندگی قلم کی صورت جہاد میں گزاری۔آخری بار جب ان سے ملا، وہ کے آر ایل ہسپتال کے انتہائی نگہداشت والے وارڈ میں تھے۔جسم کمزور، سانس پھولی ہوئی، لیکن آنکھیں وہی چمکتی ہوئیں۔میں ان کے بیڈ کے پاس کھڑا ہوا، ان کا ہاتھ پکڑ لیا۔ان کے اکلوتے بیٹے محمد مالک صاحب اس واقعے کے گواہ ہیں کہ مجھے دیکھ کر انہوں نے پہلے اپنا ماسک اتارا اور نحیف آواز میں پہلے مجھ سے خیرو عافیت پوچھی پھر نہ صرف مجھے بلکہ ہر مظلوم کشمیری کی بےبسی اور بے کسی سے نجات کی دعا کی ۔24نومبر اطلاع ملی کہ وہ اس موت کا جام پی چکے ہیں ۔کچھ لمحات تک مجھ پہ سکتہ سا طاری ہوا۔آنکھیں نم ہوئیں ۔پھر یہی یاد آیا کہ کہ ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔اور دائمی زندگی کی طرف پلٹنا ہے ۔متین صاحب بھی دائمی زندگی کی طرف پلٹ گئے ۔ ان شا اللہ دائمی زندگی اختیار کرنے کے بعد ان سے ضرور ملاقات ہوگی ۔ان کی وفات پر حزب سربراہ اور متحدہ جہاد کونسل کے چیر مین سید صلاح الدین احمدنے شاندار خراج عقیدت ادا کرتے ہوئے کہا کہ متین فکریؒ تحریک آزادی کشمیر کے ایک ایسے مخلص ترجمان تھے جنہوں نے قلم کو جہاد کا ہتھیار بنایا اور پوری زندگی حق و صداقت کے پرچم کو سربلند رکھا۔ مرحوم نہایت باوقار، باکردار، نیک سیرت، عبادت گزار انسان تھے۔ انہوں نے علمی، فکری اور صحافتی محاذ پر جس استقامت اور اخلاص سے خدمات انجام دیں، وہ تاریخ کا قابل فخر حصہ ہیں۔مرحوم متین فکری کی فکر کو کسی بھی صورت بھلایا نہیں جائیگا ۔دعا ہے اللہ تعلیٰ اس مردمومن، اس عاشق رسول اور بے لوث انسان کے لیے اپنے فضل کے دروازے کھول دے،جناب نبی اکرم ﷺ کے قرب میں جگہ عطا فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین مقام عطا فرمائےآمین یا رب العالمین۔






